ہائیر ایجوکیشن میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا کردار

Nov 22, 2023

ڈاکٹر ندیم بھٹی
 آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور Chat GPT کا بہت چرچا ہے۔جہاں پریہ دیگر معاملات زندگی میں سہولت کا باعث ہیں وہیں پراس کا ہائر ایجوکیشن  میں بھی بہت اہم کردار سامنے آیا ہے۔ پوری دنیا میں ہائرایجوکیشن کے ماہر ین AIکے مختلف پہلوں پر بحث کرتے نظرآرہے ہیں۔ کچھ ممالک میں توتعلیمی ریسرچ میںAI کے استعمال پر پاپندی لگادی گئی ہے۔مصنوعی ذہانت کو 1956 میں وضع کیا گیا تھا۔اس  وقت اس کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی کہ ”کمپیوٹنگ سسٹم انسانوں کی طرح تعلیمی عمل میں مشغول ہو نے کے قابل ہیں۔ جیسے سیکھنے ، اپنانے ، ترکیب سازی  خود کودرست کرنے اور پیچیدہ پروسینگ کے کاموں کے لیے ڈیٹا کا استعمال کرنا“۔
پچھلے پانچ سالوں  میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا بحیثیتAIٹولز بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔امریکہ  میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق 43فیصد طلبا نے AIکو استعمال کرنا سیکھا ہے جبکہ22فیصد  نے اس کو اپنی اسائمنٹس یا تھیسز لکھنے میں استعمال کیا ہے۔
پاکستان میں بھی پچھلے  ایک سال سے AIکا ذکر بہت ہورہا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ AIکے استعمال اور اس کے نقصانات کا جائزہ لیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھAI کے بارے  میں قوانین وضع کرنا بھی ضروری  ہیں۔
پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال جس میں مشین لرننگ،انڈسٹریل آٹو مشین اور بزرل نیٹ ورکس شامل ہیں کے بعد ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔  وائس اسسٹنٹ سے لیکر لیبارٹریز میں جدید تحقیقی آلات کے استعمال تک کوئی چیز اس سے مستثنیٰ نہیں۔ہائر ایجوکیشن  میںAIکے استعمال سے کئی فوائدہوسکتے ہیں۔
تبدیلی کے لیے راہنمائی: 
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال  کی وجہ سے طلبا اور اساتذہ کو براہ راست تحقیق کے مراحل سے آزاد کر کے تخلیقی معاملات کے لیے آزادکرنا ہے۔ طلبا اور اساتذہ اپنی صلاحیتیں  بچاکر تدریس اور سیکھنے کے عمل میں اضافہ  کرسکتے ہیں۔ Chat GPTکے استعمال سے اساتذہ اپنے سوچنے کے انداز کو تبدیل کرسکتے ہیں وہ یہ جان سکتے ہیں کہ ایک عرصے سے ہم چیزوں کو ایک خاص طریقہ سے  ہی کیوں دیکھتے رہے ہیں۔”اعلی ٰ تعلیم کے منظرنامے کو نئی شکل دینے  کے لیے  جنریٹو تبدیلیوں کا جائزہ لینے کے لیےAIایک ٹول کے طور پر کام کرتی ہے“
معلومات تک رسائی: چیٹGPTطلبا کو ان سوالات کا فوری جواب دے سکتی ہے جو طلباکوبہت پیچیدہ لگتے ہیں۔ طلبا کواپنے ریسرچ کے مقاصدکا  تعین کرنے میں  بہت آسانی ہوسکتی ہے۔
 چیٹ جی پی ٹی کی وجہ سے طالب علم اپنی ذاتی تعلیمی اور تحقیقی ضروریات کے مطابق تعلیمی مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں ،طالب علم اپنے سیکھنے کے سٹائل کے مطابق اپنی ضروریات  کا تعین کرکے متعلقہ تحقیقی وسائل کا حصول کرسکتے ہیں۔ 
بلا رکاوٹ تحقیقی مٹیریل کی فراہمی :Chat GPTکی وجہ سے طلبا ،اساتذہ کسی رکاوٹ  کے بغیر  24گھنٹے مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں،روایتی لائبریری کی طرح طلبہ کو اس کے کھلنے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔
اعلیٰ معیارکی تعلیمی بحث:AIکے استعمال کی وجہ سے طلبا ایک ہی  بات کا مختلف پہلوو¿ں سے جائزہ  لے سکتے ہیں۔مختلف آئیڈیاز کو ٹیسٹ کر کے طلبا اپنی سوچ کے معیار کو بلند کر سکتے ہیں۔
سیکھنے میں معاونت :AI طلبا کوسیکھنے کے لیے گفتگو کرنے ، سننے  اور لکھنے میں مدد کرسکتی ہے بالخصوص  وہ طلبا   اساتذہ جو Language کے مختلف پہلووں پر  ریسرچ کرنا چاہتے ہیں ان کو مدد دے سکتی ہے۔ جہاں ایک طرف Ai ہائرایجوکیشن میں معاونت کرسکتی  ہیں  وہیں اس کے کچھ مسائل بھی ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی اور اے آئی کے استعمال کی وجہ سے طلبا   آپس میں گفتگو اور مباحثہ کرنے کی بجائے الگ  تھلگ ہو کر اپنا کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کیHuman skills میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
ہائرایجوکیشن میں Aiکے ا ستعمال کی وجہ سے جہاں اور بہت سے مسائل پیدا  ہوں گے وہاں ایک نہایت اہم مسئلہ Plagiarism (سرقہ ) کا ہے۔سرقہ کی اصل تعریف مصنف کو مناسب کریڈٹ دئیے بغیر استعمال کرنا ہے۔Chat GPTنے دنیا بھر کے ایجوکیشنل ایکسپرٹس کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ Plagiarism کی نئی تعریف کیا کی جانی چاہیئے۔کئی ممالک اور کئی شہروں نے ریسرچ کے لیےChat GPT کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے لیکن  بہت سے ماہرین تعلیم Chat GPT کے استعمال کو منع کرنے کےخلاف ہیں۔ ان کے  خیال میں اساتذہ اور طلبا کو AI کے استعمال  کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ ریسرچ بہتر ہو سکے۔
ابھی تک Aiکا ہائر ایجوکیشن میں استعمال بہت زیادہ نہیں ہوا ہے ایک ریسرچ کے مطابق 54 فیصد امریکن طلبانے Aiکا استعمال سیکھ لیا ہے۔ جبکہ 22فیصد نے اپنی ریسرچ  کے لیے اسے استعمال کیا ہے۔
پاکستان میں ابھی AIاستعمال  کا تصور ابتدائی  مراحل میں ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہائرایجوکیشن  میں کام کرنے والے اساتذہ اور طلبا کو کو فی الفور AIاور Chat GPT کے استعمال  کی ترغیب دی جائے تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز کے مطابق  اپنے آپ کو تیار کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہائرایجوکیشن پاکستان Plagiarism سے متعلقہ قوانین کی بھی تشکیل کرے تاکہ پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کے ادارے اس ایجادسے بہتر طور پرمستفید ہوسکیں۔
(مضمون کے مصنف لاہور لیڈز یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں)

مزیدخبریں