پاکستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال نے کئی طرح کے سوال پیدا کر دئیے ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات، متحارب سیاسی جماعتوں کے مابین کشیدگی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جب سے جنرل الیکشن کی تاریخ (8فروری) کا اعلان کیا گیا ہے۔ سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے السلام (ف) نے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم شروع کر دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سندھ میں تین چار انتخابی جلسوں کے بعد اب خیبر پختونخوا کے دو اضلاع میں بھی دوبڑے جلسے کر چکے ہیں۔ تاہم ا±ن کے خطاب میں اصل ٹارگٹ ن لیگ اور میاں محمد نواز شریف رہے ہیں۔ ٹھنڈی ہوائیں جب سے نواز شریف کے حق میں چلنا شروع ہوئی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کا موڈ اور مزاج بدلا ہے۔ دیگر جماعتوں میں انجانا خوف اور سراسیمگی پائی جاتی ہے۔ 8فروری کو کیا نتائج آتے ہیں۔ سب اسی فکر اور انتظار میں ہیں۔
چار سال بعد لندن سے میاں محمد نواز شریف کی جس طرح واپسی ہوئی ہے ، اسلام آباد ایئرپورٹ پر میاں صاحب کا جس طرح خیر مقدم دیکھنے میں آیا ہے ا±س سے یہ رائے قائم کی جا سکتی ہے کہ ہوا ئیں اپنا ر±خ تبدیل کر چکی ہیں اسی لیے دیگر سیاسی جماعتوں میں خاصا اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری تو میڈیا ٹاک کے دوران، نیز اپنے سیاسی انتخابی جلسوں میں بھی اس حوالے سے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ جو نہایت الارمنگ ہے۔
میاں محمد نواز ِشریف نے لندن سے واپسی کے بعد لاہور میں ایک ہی جلسے سے خطاب کیا ہے۔ ا±ن کا یہ خطاب 21 اکتوبر کو لاہور کے مینار پاکستان پر انعقاد پذیر ایک بڑے جلسے میں ہوا۔ جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ن لیگ کو سیاسی اعتبار سے اس جلسے سے بڑی تقویت ملی ہے۔ نواز شریف انتخابی مہم کے حوالے سے گزشتہ سے پیوستہ ہفتے بلوچستان پہنچے۔ کوئٹہ میں قیام کیا اور سرکردہ بلوچی سیاسی زعماو¿ں سے ملاقات کی۔ اس دورے میں بیٹی مریم نواز، چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف اور دیگر ن لیگی رہنما بھی ا±ن کے ساتھ تھے۔ طے تو پہلے ہی سے تھا لیکن اس دورے کے دوران مقامی بلوچ رہنماو¿ں نے، جن کی تعداد تیس سے اوپر تھی ، نہ صرف میاں محمد نواز شریف کی قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا بلکہ غیر مشروط طور پر ن لیگ میں شمولیت بھی اختیار کر لی۔ اسٹیبلشمنٹ کی چھاپ والی ”باپ“ پارٹی بھی ن لیگ کی ہمرکاب ہو گئی جبکہ اس سے پہلے ”باپ“ پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی و انتخابی اشتراک کے لیے پَر تول رہی تھی۔ اس ضمن میں ”باپ“ کا بیان بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ”ہواو¿ں“ کا ر±خ بدلتا دیکھ کر ا±ن کی سوچ بھی بدل گئی ہے۔ وہ ا±ن کے نہ ہو سکے، جن کے ہونے والے تھے۔
بلاول بھٹو زرداری اسی لیے بہت زیادہ جذباتی ہورہے ہیں۔ ایم کیو ایم والے بھی پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کر کے ن لیگ کے ہو چکے ہیں۔ دونوں جماعتوں کے مابین چند نکاتی معاہدہ بھی طے پا گیا ہے۔ دونوں جماعتوں نے فروری 2024ءکے انتخاب میں مل کر چلنے کا عہد کیا ہے۔ جہاں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنی ہو گی دونوں جماعتیں مل کر کوئی راہ نکالیں گی۔ سب کچھ باہمی رضامندی سے ہو گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے ن لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد کو غیر فطری قرار دیتے ہوئے بہت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے۔ سعید غنی تو پھٹ پڑے ہیں۔ ایک پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کی دھلائی کرتے نظر آئے۔ ایم کیو ایم کی سیاست کو سندھ میں مردہ گھوڑا قرار دیا۔ جس کے بعد ایم کیو ایم نے بھی اپنے ہیڈ کوارٹر مہاجر آباد سے پی پی پی کے خلاف سخت بیان جاری کیا۔ وہ بھی پی پی پی کو آئینہ دکھاتے نظر آئے۔
جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا سوال ہے تو فی الحال ا±س کا سیاسی مستقبل ”تاریک “ ہی نظر آتا ہے۔ عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں ہیں جبکہ شاہ محمود قریشی اور صدر پرویز الہٰی بھی خاں صاحب کی ساتھ والی بیرک میں مقید ہیں۔ خاں صاحب پر سنگین نوعیت کے مقدمات ہیں۔
9مئی کے علاوہ سائفر اور 190ملین پاو¿نڈ والے کیس اتنے مضبوط اور سنگین ہیں کہ عمران خان ان سے بچتے دکھائی نہیں دیتے۔ شاہ محمود قریشی کو بھی سائفر کیس کا سامنا ہے۔ خارجہ امور کی وزارت سے ا± ن کے خلاف کافی مضبوط اور ناقابل تردید شہادتیں آ چکی ہیں۔ سزا کا تعین کیا جائے تو سائفر کیس میں کم از کم سزا عمر قید اور زیادہ سے زیادہ سزائے موت ہے۔ چونکہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی خاں صاحب کو پہلے جیسی آشیر باد حاصل نہیں، اس لیے ا±ن کے لیے بہت مشکل گھڑی ہے۔ عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے اور وہ سخت ترین سیاسی و قانونی آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ ا±ن کی باقی لیڈرشپ بھی یا تو جیلوں میں ہے یا پھر روپوشی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے سیاسی حالات بالکل بھی سازگار نہیں۔ پی ٹی آئی انتخابی میدان میں اتری بھی تو ا±سے سخت مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ملک میں اس روایت کو سبھی مانتے اور جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ جس جماعت کے ساتھ نہ ہو، وہ انتخابی عمل ہی سے باہر ہو جاتی ہے، اسے کامیابی نہیں ملتی۔ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت پوری طرح پی ٹی آئی کو حاصل تھی۔ اس لیے جوڑ توڑ بھی ہوئے اور دھاندلی کے سارے ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے جس نے تحریک انصاف کی جیت کی راہ ہموار کی۔ پنجاب میں ن لیگ کی اکثریت کے باوجود صوبے میں حکومت پی ٹی آئی نے بنائی۔ اب بھی وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ تاہم قوم، میڈیا اور تمام غیر جانبدار مبصر کبھی بھی اس غلط ”کام“ کو سپورٹ نہیں کریں گے۔