بلوچستان کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ بلوچستان کی سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے ،بلوچستان ایک ایسا صوبہ ہے جس میں کہ چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں موجود ہیں اور یہی سیاسی جماعتیں الیکشن لڑتی ہیں۔ چونکہ یہ جماعتیں صرف ایک محدود علاقے میں کام کرتی ہیں اس لیے نتائج بھی اسی انداز کے برآمد ہوتے ہیں۔کہیں پر کسی کا ایک سینیٹر منتخب ہو تا ہے کسی کا ایک ایم این اے ہو تا ہے۔ کسی کے دو ایم پی اے ہو تے ہیں۔اس صورتحال میں تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرز کی سیاست سے قومی سیاست میں بڑا حصہ نہیں لیا جاسکتا۔محمود خان اچکزئی کی قابلیت ،صلاحیت اور فہم اور فراست اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ ایک قومی لیول کے لیڈر ہوں اور قوم کی رہنمائی کریں لیکن وہ صرف اور صرف پانچ اضلا ع کی سیاست کے لیے اپنا خون پسینہ بہا رہے ہیں۔اس سے یقینا بہتر یہی ہے کہ قومی وہ سیاست میں قدم رکھیں۔کچھ اسی قسم کی حالت سردار اختر مینگل کی بھی ہے۔ وہ بھی اسی طرح کی ہی سیاست کررہے ہیں۔مرحوم حاصل بزنجو کو اللہ تعالیٰ بخشے انھوں نے اس سیاسی ریت کو توڑنے کی کوشش کی تھی اور اپنی سیاسی جماعت کو قومی سطح پر لے آئے تھے۔اور یہ انہی کی حکومت تھی جو کہ ڈاکٹر عبدلمالک بلوچ کی سربراہی میں ڈھائی سال تک بلوچستان میں بر قرار رہی تھی اور مدت کے دوران اس حکومت نے بلوچستان کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی اور اگر یہ حکومت مزید 2سے 3سال رہ جاتی تو قوی امکان تھا کہ بلوچستان کے بیشتر مسائل حل ہو چکے ہو تے لیکن نواز شریف صاحب نے،جن کے ساتھ اشتراک کرکے یہ حکومت بنی تھی، باقی وقت نواب زہری کی حکومت کے ذریعے پورا کرنا چاہا ،اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو کچھ مالک صاحب کی حکومت نے کیا تھا اور جو کامیابیاں حاصل کیں تھیں وہ سب کی سب لاحاصل رہیں اور اگر کہا جائے کہ ضا ئع ہو گئیں تو غلط نہیں ہو گا۔ہمیں اس سلسلے سے نکلنے کی ضرورت ہے اور سیاسی مصلحتوں سے باہر نکل کر صرف اور صرف اچھی گورننس کو ترجیح دیں اور میرٹ پر اس کا ساتھ دیا جائے جو کہ مسائل پر قابو پانے کی اہلیت رکھتا ہو تو ہی ملک کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔اس کے بغیر کوئی اور چارہ بھی نہیں۔ صوبے کی سیاسی جماعتوں کو مین اسٹریم میں آنا ہو گا۔جب بڑی جماعتوں کی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آئیں گے تب ہی مسائل کے حل کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی جماعتیں اپنے ذاتی مسائل تو حل کروا سکتی ہیں لیکن صوبے کے مسائل حل نہیں کرسکتیں۔۔یہ سب چھوٹی چھوٹی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں تب جا کر صوبے کے مسائل بھی حل کروا سکتی ہیں اور حق نمائندگی بھی ادا کرسکتی ہیں۔ اور اسی طرح مین اسٹریم جماعتوں میں بااثر نمائندگی کے ذریعے ہی بلوچستان کے دیگر مسائل بھی حل کروائے جاسکتے تھے۔
اس بات کی مثال اس طرح سے دیتا ہوں کہ اگر اس وقت بلوچستان کی موثر نمائندگی موجود ہوتی تو وزارت مواصلات میں بھی بلوچ لیڈروں کا زیادہ عمل دخل ہوتا۔ ایم ایل ون پراجیکٹ میں بلوچستان کا حصہ بھی ہو تا اور بلوچستان کا ریلوے ٹریک بھی نیشنل ٹریک سے جڑا ہو تا لیکن ایسا نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے یقینا بلوچستان کے عوام کو نقصان ہوا ہے۔اگر گاڑی چھوٹی پٹڑی پر ہی چلتی رہے گی تو اس صورت میں سفر زیادہ تھکا دینے والا ہو گا اور اس کے فوائد کم ہوں گے۔ بہر حال بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو مین سٹریم کا حصہ بننا چاہیے۔ قومی دھارے میں شامل ہو جانا چاہیے اور بلوچستان کے عوام کے مسائل حل کر نے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ بلوچستان کے عوام اس بات کے حق دار ہیں کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں اور وہ بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوں،چاہے وہ بلوچستان کی تعلیم کے مسائل ہوں یا پھر صحت کے مسائل ہو ں۔ حل ہونے چاہیئں اور بلوچستان کو ترقی کرنی چاہیے ،کیونکہ یہ بات تو حقیقت ہے کہ بلوچستان میں ویسی ترقی نہیں ہو سکی جیسی کہ باقی ملک میں ہوئی ہے ،بلوچستان باقی ملک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد بلوچستان کو قومی دھارے میں واپس لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔کوئی بھی ملک یا کوئی بھی وفاق اس وقت تک بہتر انداز میں کام نہیں کر سکتا ہے جب تک کہ اس کی تمام اکائیاں اس کے ساتھ نہ چلیں اور تمام اکائیوں کے عوام کو مناسب حقوق نہ مل رہے ہوں۔یہ بات سمجھنے کی ہے اور بہت اہمیت کی حامل ہے۔بعض اوقات تو سفارت کار بھی ہم سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر بلوچستان ترقی کی دوڑ میں اتنا پیچھے کیسے رہ گیا ؟تو اس کا جواب یہی ہے کہ ہماری قیادت کی سوچ یہی ہے کہ چھوٹی چھوٹی جماعتیں بنا ئی جائیں اور ان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں شمولیت کی کوئی سوچ موجود ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چھوٹی جماعتوں میں بعض لیڈر خود کو بڑے قد کاٹھ کا لیڈر سمجھتے ہیں اور اسی پر خوش رہتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی ذاتی خوشی اور ذاتی مفادات کو بالا ئے طاق رکھ کر قوم کی ترقی کا سوچا جائے۔ یہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔