اگلی حکومت مشروط ہونے کا اشارہ، اگر نتائج پہلے ہی طے کرنے ہیں تو انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں بلاول بھٹو زرداری۔
انتخابات کا بگل بجنے کے بعد بلاول مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ آج کل خیبر پختونخواہ میں ورکرز کنونشنز سے خطابات کر رہے ہیں۔ ہم نے مخلوط حکومت کے بارے میں سناہے۔ قومی حکومت کی بازگشت بھی آتی رہتی ہے۔ کمزور اور مضبوط حکومت کی اصطلاحات بھی مروج ہیں۔ مشروط حکومت کا پہلی بار سنا ہے۔ اس سے ہر کوئی مرضی کا نتیجہ اخذ کر سکتا ہے۔ کسی کو شرائط کے تحت حکومت دی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شرط لگالے کہ ایسی حکومت آئے گی جیسا اوپر تذکرہ کیا گیا ہے۔ ب±کیے میدان میں آکر ریٹ کھول سکتے ہیں کہ فلاں پارٹی حکومت میں آئے گی، فلاں لیڈر وزیراعظم بنے گا۔ اس قسم کی حکومت کو مشروط سرکار کہا جا سکتا ہے۔ بلاول اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ نتائج پہلے سے طے کرنے میں کرنے ہیں تو الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں۔ اول تو الیکشن سے پہلے نتائج طے ہو نہیں سکتے۔اگر بالفرض کہیں ایسی سوچ موجود تھی تو بلاول کی طرف سے لٹھ ا±ٹھانے اور گھمانے کے بعدیہ امکان مٹیﺅ مٹی ہو گیا۔ نوشہرہ میں جو پختونوں کی سرزمین ہے وہاں اجتماع سے خطاب میں بلاول نے یہ بھی کہا کہ میری طرح آپ کی اردو بھی کمزور ہے۔ کچھ لوگ اردو تلفظ کو سندھی بلوچی یا پشتون لہجے میں ادا کرتے ہیں تو کچھ ”اردو دان“اس پر ہنس دیتے ہیں۔ خصوصی طور پر مذکر مونث کو مکس یا آگے پیچھے کرنے پر،جیسے کوئی لڑکا یہ کہہ دے، میں اِدھر آئی ہوئی ہوں۔ دو چار لوگوں میں ایسی بات کہی ہو تو اگر قہقہہ نہ لگے تو بھی مسکراہٹ تو ایک دو کے لبوں پر بکھر جاتی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو پشتو، سندھی، بلوچی بول سکتے ہیں۔یہ لوگ جیسے بھی بولتے ہیں اردو میں اپنا مطلب سمجھا دیتے ہیں۔ویسے بلاول کی اردو اتنی بھی کمزور نہیں ہے۔اپنے نانا اور والدہ کی طرح اجتماع کو گرما دیتے ہیں،اپنی بات سمجھا دیتے ہیں جہاں تک فصاحت اور بلاغت کا تعلق ہے تو کسی نے کیا خوب کہا ہے
سمجھ میں صاف آجائے، فصاحت اس کو کہتے ہیں
اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں
میٹرو بس میں چوری کی وارداتیں کرنیوالا لیڈی گینگ گرفتار۔
چوری کی وارداتیں کرنے والیوں کے گینگ کو لیڈی تو اس طرح کہا گیا ہے جیسے ان نوسرباز عورتوں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔یہ پنڈی اسلام آباد میٹرو میں ہاتھ کی صفائی دکھاتی تھیں۔خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ان کا طریقہ واردات کیا تھا؟ کیا صرف خواتین کو لوٹتی تھیں یا مردوں کو بھی ہاتھ دکھادیتی تھیں؟؟جس نے یا جنہوں نے پکڑا ان کے بارے بھی خبر خاموش ہے۔ویسے نوسر بازی کے کئی طریقے رائج ہوچکے ہیں۔نوسرباز اپنی زبان اور بھیس سے بھی فریب دیتے ہیں۔نفسیاتی حربے بھی استعمال کرتے ہیں۔ایئر پورٹ کار پارکنگ میں سبز کپڑوں میں ملبوس ملنگ نے گاڑی سے اتر کر ڈیپارچر کی طرف جانے والے مسافر کے سامنے آتے ہوئے کہا۔”دے جا اللہ کے نام پر بچہ“ اس کی آواز میں ایسا جادو اور لباس و گلے میں پہنی مالا میں طلسم تھا کہ مسافر نے جیب میں ہاتھ ڈالا ہزار روپے کا نوٹ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔یہ اس نے کسٹم حکام کیلئے رکھا تھا۔اگلے لمحے احساس ہوگیا کہ ہزار کا ہزار ہی دیدیا۔اس دوران بابا جی کی آواز آئی، ر±ک بچہ! مسافر نے رکتے ہوئے پیچھے م±ڑ کر دیکھا تو بابا جی نے جلالی آواز میں کہا۔”مانگ کیا مانگتاہے۔مسافر نے بڑی لجاجت سے کہا۔”میرا ہزار واپس کردے۔“
سموگ کے باعث تعلیمی ادارے جنوری کے آخر تک ہفتے کے روز بند کرنے کافیصلہ۔
ایسے فیصلے اور اعلانات ہوں تو بچے خوش نہ ہوں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بچوں کے فین کورونا کے دنوں میں وزیر تعلیم شفقت محمود ہوا کرتے تھے۔آئے روز طویل مدت کیلئے سکول کالج بند اور پھر ڈھیروں نمبر بغیر امتحان دیئے حاصل کر کے اگلی کلاس میں۔ شفقت محمود بچوں کو بہت یاد آتے ہیں۔ننھے منے بچوں کے ووٹ ہوں تو شفقت محمود بھاری اکثریت سے جیت جائیں۔حکومت کی طرف سے سموگ کے مضر اثرات سے بچوں بڑوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ماسک پہننے کو کہا جارہا ہے۔بڑے من موجی ہیں ماسک لیں یا نہ لیں۔بچے اسی پر خوش ہوگئے کہ اب چھٹی ہفتے کے دن کی ہی سہی۔پڑھاکو بچوں کی تو جان سکول میں اٹکی رہتی ہے۔”چھٹیارے“ یعنی چھٹی پسند بارش ہوجائے تو ”خوش خ±شال“ بعض تو چھوٹی موٹی بیماری پر بھی نہال ہوجاتے ہیں۔تھوڑی سی طبیعت خراب ہوئی تو بچے نے کہا،میں نے سکول نہیں جانا،ماں نے سکول بھیجنے پراصرار کیا تو بچہ بولا، مجھے بیمار ہونے کا فائدہ کیا ہوا اگر سکول ہی جانا ہے۔دوچار چھینٹے پڑے، بچوں کو چھٹی کابہانہ مل گیا۔اگر زبردستی بھیج دیا تو دروازے سے خود ہی پھسلے ،کپڑے لتھڑے۔ اب بھیج لو سکول۔
سموگ کے تدارک کی ضرورت ہے۔کئی سال سے سموگ اپنا آپ دکھارہی ہے۔نگران حکومت ممکنہ اقدامات ا±ٹھا رہی ہے۔اس کے پاس پالیسی سازی کا وقت نہیں تھا۔یہ سیاسی حکومت کے بعد آئی۔افسر شاہی تو بدستور رہتی ہے۔اس نے کیوں بروقت اقدامات نہیں ا±ٹھائے۔آج کیا یہ لوگ اور ان کے اہلِ خانہ سموگ کے اثرات سے محفوظ ہیں؟
بھارت کی ہار پر ڈھاکہ میں ہزاروں بنگلہ دیشی طلبہ کا بھرپور جشن، ویڈیو وائرل۔
بنگلہ دیش کی ٹیم پاکستان سے بھی پہلے ورلڈ کپ سے فارغ ہو کر زخم سہلاتے ہوئے اپنے دیش چلی آئی تھی۔ ڈھاکہ میں بھارت کے ہار نے کی خبر دو دن تاخیر سے پہنچی جیسے ہی پہنچی طلباکی طرف سے جشن منایا جانے لگا۔ دراصل ڈھاکہ کے طلبا بھارت کی ہار پر اتنے زیادہ خوش نہیں ہوئے جتنے وہ پاکستانیوں کی خوشی میں خوش ہوئے۔ پاکستان کی ٹیم ورلڈ کپ کے سیمی فائنل سے باہر ہوکرمایوسی سے واپس آگئی۔ہر پاکستانی دلبرداشتہ تھا۔ جیسے ہی آسٹریلیا نے بھارت کو ہرایا۔ یہ بھارت کو کیا ہرانا تھا۔ بھارت کے غرور کا ٹوکرا گراناتھا۔ اس پر پاکستان میں خوشی منائی جانے لگی۔بھارت کے ہاتھ سے ورلڈ کپ گیا تو گویاآدھا کپ ہمیں مل گیا۔ ڈھاکہ کے طلبا کے جشن کودیکھا جائے توجیسے آدھے میں سے آدھاکپ بنگلہ دیش کے حصے میں آگیا۔ بیگانی شادی میں عبداللہ اسی طرح دیوانہ ہوتا ہے۔ جہاں تک بنگلہ دیش کی ٹیم کا تعلق ہے اس کو ٹیسٹ میچ کا سٹیٹس دلانے میں پاکستان کو ایک میچ قربان کرنا پڑا تھا لیکن جب بھی پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین میچ ہوتا ہے تو بنگلہ دیشی ٹیم کی طرف سے یک طرفہ طور پر اس کو ایک معرکے کی طرح لیا جاتا ہے۔ یہی کچھ افغان ٹیم کی طرف سے بھی پاکستان کے حوالے سے ہوتا ہے حالانکہ افغانستان کی ٹیم کو پاکستان نے تربیت دے کر اس مقام تک پہنچایا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو ہرایا تو انہوں نے بھی یہ سمجھ لیا کہ آدھا ورلڈ کپ جیت گئے ہیں۔ ویسے تو بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کی ٹیموں کے مابین ایک بہت ہی مربوط واسطہ اور رابطہ ہونا چاہیے۔ وہ بوجوہ نظر نہیں آتا چلیں پھر اب یہ تینوں ٹیمیں ورلڈ کپ ہاتھ سے جانے کے بعد مل کے کریں آہ و زاریاں اور مستقبل کیلئے کوئی چَج کی پلاننگ کریں۔