سستی عرب لاشیں 

Nov 22, 2024

ُپروفیسر احمد خان

احمد خان
 Ahmadkhan9421@yahoo.com

 موجودہ زمانے کے جدید ذرائع ابلاغ پر انسانی حقوق کی مختلف جدید اصطلاحات کے ساتھ سنائی جانے والی تعریفیں حتی کہ گلیوں میں چلتے ہوئے کتوں ، کتوروں، دیواروں پہ اچھلتی ہوئی بلیوں ، سمندر کے تہوں کے اندر چلنے والی مچھلیوں کے لیے چیخنے والی مہذب دنیا کے ہوتے ہوئے سستی عرب لاشوں کا نوحہ کسی کو سنائی نہیں پڑ رہا یہ کم دام عرب لاشیں رملہ، نابلوس،غزہ ،خان یونس سے ہوتی ہوئی ابھی لبنان اور شام کے اندر کھیت ہو رہی ہیں ان کے کھیت اگانے کے لیے بیج نہیں صیہونی آہنی پرندے بارود برسا رہے ہیں سیراب کرنے کے لیے پانی نہیں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں معصوموں کے خون سے سیراب ہوتے سستی عرب لاشوں کے کھیت دنیا کے ضمیر جھنجوڑ نے میں ناکام ہیں یو این کے اندر بیٹھے ہوئے وہ تمام لوگ کہ جو دنیا میں ایک کتے کے مر جانے پہ چیخ وپکار کرنے لگتے ہیں ایک بلی کے بچے کے حقوق پر بھی وہ بھاشن جھاڑنا ضروری سمجھتے ہیں سڑک پر بکھرے ہوئے مرغی کے چوزوں کا کچلا جانا بھی ان کے نزدیک بہت بڑا جرم ہے لیکن غزہ کے اندر سال بھر میں کم از کم 50 ہزار بچوں کی شہادتیں کوئی جرم نہیں رہا دو ہفتے میں سینکڑوں بچوں کا قتلِ عام کوئی بڑی بات نہیں ، غزہ کے اگلی کوچوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں حاملہ خواتین کا بغیر ادویات کے مر جانا کسی انسانی و حیوانی حقوق کے چیمپئن پہ بھاری نہیں پڑا نہیں رہا،اسپتالوں کے اندر مریضوں پر اسرائیل کے فولادی پرندوں کی بارود و اہن کی بارش قابلِ مواخذہ تو کیا قابلِ مذمت بھی نہیں بلکہ طرفہ تماشا یہ کہ انکل سام کے 80 سالہ لڑھکتے بوڑھے کے خیال میں یہ اسرائیل کے حقِ دفاع کے زمرے میں آتا ہے بھوک سے مرتے اور سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے پناہ گزین فلسطینی ان کے نزدیک قابلِ ذکر بھی نہیں ہیں جب انصاف ختم ہو گیا ہے، دلیل سے بات کرنا جرم بن گیا ہے،اپنے گھروں سے نکالے ہوئے لوگ دہشت گرد قراردےدیے گئے ہیں اور قابض و غاصب ہی حقیقی اور جائزمالک ٹھرے ہیں تو مجھے بتائیے کہ ایسے میں راند? درگاہ ، حرماں نصیبوں سے کیسے کسی رحم کی امید کی جا سکتی ہے بلی اور گیدڑ دو کمزور جانور ہوتے ہیں لیکن ان کا بھی جب رستہ روک لیا جاتا ہے تو اپ کے گلے کو نوچنے پہ ا جاتے ہیں آج فلسطینی بلی اور گیدڑ کی طرح اسرائیل کے مرد عورتوں اور بچوں کو نوچ کھانا چاہتے ہیں فلسطینیوں کا اسرائیل کے جوان اور معصوم نہتے اسرائیلیوں کو قتل کرنا بالکل بھی قابلِ تحسین نہیں ہے لیکن اسرائیلیوں کے قتل پر واویلا کرتی مہذب عالمی برادری سے دست بستہ سوال تو بنتا ہے کہ کم و بیش 78 سال سے کٹتے فلسطینی 78 سال سے گھروں سے نکالے جاتے بوڑھے عرب 78 سال سے مسجد اقصی کے گرد و پیش کے محلوں میں اپنی ابائی زمینوں سے بے دخل کرتے کیے جاتے خاندان کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں؟؟؟ آج عالمی برادری یہ چاہتی ہے کہ مشرق وسطی میں امن ہو جائے اج عالمی برادری یہ چاہتی ہے کہ اسرائیلیوں کو ایک مہذب قوم کے طور پر تسلیم کر لیا جائے اسرائیلیوں کا خود کو ایک مہذب قوم کے طور پر تسلیم کروانا بنیادی حق ہے لیکن ان کا یہ بھی تو فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک مہذب قوم کے طور پر پیش کریں وہ فلسطینی حاملہ عورتیں، فلسطین کے ہسپتال، فلسطین کے معصوم بچے،فلسطین کے بے گھر لوگ کسی کو بھی تو نہیں چھوڑ رہے اگر وہ کسی دوسرے کو آہن و بارود کی آگ میں جلانا اپنا جائز حق سمجھیں گے تو دنیا ان کو مہذب قوم سمجھ بھی لے تو اس سے فرق نہیں پڑتا تاریخ ان کو ایک قاتل گروہ ہی لکھے گی عرب اور اسرائیلی دونوں کو بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر مل بیٹھ کر معاملہ طے کر لینا چاہیئے کوئی شک نہیں ہے کہ یروشلم کی سرزمین پر تمام ابراہیمی مذاہب مشترکہ حق تقدیس رکھتے ہیں لیکن جب تک با مقصد بات چیت کے ذریعے ایک قابلِ عمل فارمولے کے ساتھ اس مسئلے کو حل نہیں کیا جائے گا دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا ہٹلر نے جو جنگ لگائی تھی کبھی بھی مہذب لوگوں نے اس کو جائز تسلیم نہیں کیا لیکن ہٹلر کی لگائی ہوئی اگ کی تپش سے فلسطینیوں کو جلایا جانا بالکل بھی قرینِ انصاف نہیں ہے حماس اور دیگر جہادی گروہوں کا غیر مسلح ہونا ایران اور دیگر مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیل کا تسلیم کیا جانا فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی ممکن ہو پائے گا عالمی صیہونی لابی کے دباو¿ سے نکل کرعالمی برادری کو فلسطینیوں کے جائز حقوق کے لیے آگے بڑھ کر بات کرنا ہوگی ورنہ یہ جنگ جاری رہے گی دونوں طرف نہتے اور معصوم مارے جاتے رہیں گے اور دونوں فریق اپنی اپنی مظلومیت کی کہانی بیان کرتے رہیں گے کسی پر ظلم کم ہوا کسی پر زیادہ لیکن نہتے اور مظلوم کا قتل فلسطینی ہو یا اسرائیلی کبھی بھی جائز نہیں ہے ہم سب کو اگے بڑھ کر نہتے لوگوں کے قتل کی مذمت کرنا ہوگی چاہے وہ فلسطینی ہوں یا اسرائیلی اور اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی ایک جائز ریاست جو ان کی تاریخ ، جغرافیہ ، زبان اور مذہبی آزادی کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صدیوں پر محیط تہذیب کی بھی ضامن ہو کا قیام ازحد ضروری ہے مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں عالمی امن بھی دو ریاستی حل کے بغیر داو¿ پہ لگا رہے گا

مزیدخبریں