ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جو قاضی بنادیا گیا (گویا) وہ بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا۔ بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ایک جنتی اور دو جہنمی، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہوگا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے۔ اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یعنی ابن بریدہ کی تین قاضیوں والی حدیث اس باب میں سب سے صحیح روایت ہے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا جب حاکم (قاضی) خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور درستگی کو پہنچ جائے تو اس کے لیے دوگنا اجر ہے، اور جب قاضی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے اور خطا کر جائے تو بھی اس کے لیے ایک اجر ہے ، راوی کہتے ہیں میں نے اس حدیث کو ابوبکر بن حزم سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: مجھ سے اسی طرح ابوسلمہ نے ابوہریرہ ؓ کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا ہم ہرگز کسی ایسے شخص کو عامل مقرر نہیں کریں گے جو عامل بننا چاہے۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے رشوت دینے، اور رشوت لینے والے دونوں پر لعنت کی ہے۔ عدی بن عمیرہ کندی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا لوگو تم میں سے جو شخص کسی کام پر ہمارا عامل مقرر کیا گیا، پھر اس نے ہم سے ان (محاصل) میں سے ایک سوئی یا اس سے زیادہ کوئی چیز چھپائی تو وہ چوری ہے، اور وہ قیامت کے دن اس چرائی ہوئی چیز کے ساتھ آئے گا اتنے میں انصار کا ایک کالے رنگ کا آدمی کھڑا ہوا، گویا کہ میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھ سے اپنا کام واپس لے لیجئے، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا کیا بات ہے؟ اس شخص نے عرض کیا آپ کو میں نے ایسے ایسے فرماتے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا میں تو یہ کہہ ہی رہا ہوں کہ ہم نے جس شخص کو کسی کام پر عامل مقرر کیا تو (محاصل) تھوڑا ہو یا زیادہ اسے حاضر کرے اور جو اس میں سے اسے دیا جائے اسے لے لے، اور جس سے منع کردیا جائے اس سے رکا رہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے یمن کا قاضی بنا کر بھیجا تو میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! آپ مجھے (قاضی) بنا کر بھیج رہے ہیں جب کہ میں کم عمر ہوں اور قضاء (فیصلہ کرنے) کا علم بھی مجھے نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے دل کی رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو ثابت رکھے گا، جب تم فیصلہ کرنے بیٹھو اور تمہارے سامنے دونوں فریق موجود ہوں تو جب تک تم دوسرے کا بیان اسی طرح نہ سن لو جس طرح پہلے کا سنا ہے فیصلہ نہ کرو کیونکہ اس سے معاملے کی حقیقت واشگاف ہو کر سامنے آجائے گی وہ کہتے ہیں: تو میں برابر فیصلہ دیتا رہا، کہا پھر مجھے اس کے بعد کسی فیصلے میں شک نہیں ہوا۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا میں انسان ہی ہوں تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں۔
اس حدیث کی تفسیر، وضاحت فقہاء کرام، علماء کرام نے کچھ یوں کی ہے۔یعنی میں انسان ہوں اور انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کروں گا، اگر کوئی شخص اپنی منہ زوری اور چرب زبانی سے دھوکا دے کر حاکم سے اپنے حق میں فیصلہ لے لے اور دوسرے کا حق چھین لے تو وہ مال اس کے حق میں اللہ کے نزدیک حرام ہوگا اور اس کا انجام جہنم کا عذاب ہے، موجودہ زمانہ کی عدالتی کارروائیوں اور وکلاء کی چرب زبانیوں اور رشوتوں اور سفارشوں کے نتیجہ میں ہونے والی جیت سے خوش ہونے والے مسلمانوں کے لئے اس ارشاد نبوی میں بہت بڑی موعظت اور نصیحت ہے۔
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کے پاس دو شخص اپنے میراث کے مسئلے میں جھگڑتے ہوئے آئے اور ان دونوں کے پاس بجز دعویٰ کے کوئی دلیل نہیں تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا (پھر راوی نے اسی کے مثل حدیث ذکر کی) تو دونوں رو پڑے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کہنے لگا میں نے اپنا حق تجھے دے دیا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ان دونوں سے فرمایا: جب تم ایسا کر رہے ہو تو حق کو پیش نظر رکھ کر (مال) کو تقسیم کرلو، پھر قرعہ اندازی کرلو اور ایک دوسرے کو معاف کر دو۔ اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہوچکی تھیں، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے۔ عبداللہ بن زبیر ؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے حکم دیا کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں حاکم کے سامنے بیٹھیں۔ ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے اپنے بیٹے کے پاس لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا ہے: غصے کی حالت میں قاضی دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین