ذکر اس پری وش کا تو ضرور ہو گاجس کیلئے پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز کا تمام ایئر ٹائم وقف ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ عالمی افق پر اچانک منڈلانے والے ایک بڑے خطرے کی بات زیادہ اہم ہے اور یہ خطرہ ہے یوکرائن روس جنگ میں شمالی کوریا اور پولینڈ کی شمولیت کا۔ پولینڈ سے آپ کو پہلی اور پھر دوسری جنگ عظیم کی بات یاد آ گئی ہو گی۔ ظاہر ہے، لازمی بات ہے۔
روس نے یوکرائن پر حملہ کیا، شہری آبادی کو تباہ کرنے کی نئی داستانیں رقم کیں اور یوں اپنی شاندار عسکری روایات کو زندہ کیا لیکن یوکرائن کی جوابی مزاحمت کی تاب نہ لا سکا اور اپنی آدھی سے زیادہ فوج مروا لی، فضائی طاقت کا بھی ایک تہائی رہ گیا۔ پچھلے مہینے اس نے شمالی کوریا سے مدد طلب کی جو اس وقت پانچ سپر طاقتوں میں سے تیسری بڑی سپرطاقت ہے۔ یہ اپنی جگہ کمال کی بات ہے۔ اڑھائی کروڑ کی آبادی رکھنے والا نسبتاً بہت چھوٹا ملک اس وقت دنیا کی تیسری بڑی ملٹری مائٹ ہے۔ شمالی کوریا نے کئی ہزار فوج، اپنی گیارہ بارہ لاکھ کی آرمی سے روس اور یوکرائن کے میدان جنگ میں روانہ کر دی۔
یہ غیر متوقع پیش رفت تھی اور عموماً غیر متوقع پیشرفت کئی قسم کی غیر متوقع پیش رفت کا راستہ کھولتی ہے چنانچہ امریکہ نے یوکرائن کو فراہم کئے گئے ان میزائلوں کو روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت دے دی جو اس شرط پر اسے دئیے گئے تھے کہ ان کا استعمال صرف محاذ جنگ پر ہو گا۔ روس کے اندر ان میزائلوں کے استعمال کا مطلب روسی کمک کے مراکز کی تباہی ہے۔ یہ چند روز پہلے ہوا اور تازہ خبر یہ ہے کہ یورپی یونین نے بھی یوکرائن کو اجازت دے دی ہے کہ وہ ان کے فراہم کردہ لسٹر بموں کو روس کے اندر استعمال کر سکتا ہے۔ یہ میزائل بھی محض محاذ جنگ پر ہی استعمال کرنے کی شرط پر دئیے گئے تھے۔ چنانچہ یوکرائن نے سٹارم شیڈو نام کے یہ میزائل روسی سرزمین پر چلانے شروع کر دئیے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یورپی یونین نے یہ اجازت اعلانیہ نہیں، سرگوشیانہ انداز میں دی ہے یعنی خاموش رضامندی۔
روس نے حفاظتی پالیسی کے تحت اپنے ہتھیاروں کے ذخائر بہت زیادہ اندرونی علاقوں میں لے جانا شروع کر دئیے ہیں تاکہ یہ میزائل وہاں تک نہ پہنچ سکیں لیکن اس کا نقصان خود روس کو بھی ہو گا، یعنی اسے میدان جنگ تک پہنچانے کیلئے بہت دور سے ہتھیار لانا ہوں گے۔ نقل و حمل پر بے پناہ خرچ ہو گا۔ بھوکا، ننگا اور قلاّش روس اس وقت محض چین کی مالی مدد پر زندہ ہے۔
پولینڈ کی شمولیت کا مطلب یہ نہیں کہ پولینڈ جنگ میں کود پڑا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ روس کی جوابی حکمت عملی کے اعلان کا ترجمہ یہ کیا جا رہا ہے کہ وہ پولینڈ پر حملہ کرنے والا ہے۔ پیوٹن نے اعلان کیا ہے کہ مذکورہ میزائلوں کی فراہمی سے نیٹو ممالک نے خود کو روس پر حملہ آور ممالک میں شامل کر لیا ہے اور اب وہ جوابی کارروائی کا حق رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی روس نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے قانون میں ترمیم کی ہے اور اب پیوٹن بااختیار ہو گئے ہیں کہ وہ نیٹو کی فوج، یوکرائن پر ایٹمی ہتھیار چلا سکیں اور مبصّرین کہہ رہے ہیں کہ پہلا حملہ روس پولینڈ پر کرے گا جس پر اس کا الزام ہے کہ وہ یوکرائن کی افرادی اور اسلحی، دونوں طرح سے مدد کر رہا ہے۔
فوری طور پر جو بڑا حملہ متوقع ہے، وہ یوکرائن پر ہونے والا ہے جس کے پیش نظر امریکہ نے یوکرائن میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا ہے۔
بہت بڑی تباہی کا خطرہ یقینی تو نہیں لیکن تصادم کے پھیل جانے کے امکانات برابر پھیل رہے ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں۔
______
ذکر اس پری وی کا، تمام قومی ٹی وی چینل کا سارا ایئر ٹائم جس کے ذکر کیلئے وقف ہے۔ تو ماجرائے تازہ کچھ یوں ہوا کہ پی ٹی آئی کا وفد گنڈاپور اور گوہر خاں کی شکل میں، حکومتی رضا مندی سے اڈیالہ جا پہنچا اور ایک نہیں، دو بار جا پہنچا اور عرض گزار ہوا کہ حضور، 24 نومبر کی کال کے کامیاب ہونے کے امکانات نابود ہوتے جا رہے ہیں۔ کارکن نہیں نکل رہے، پولیس سختی کر رہی ہے، ٹرانسپورٹر حضرات گاڑیاں دینے پر تیار نہیں اور کارکن کسی بھی قسم کی ٹرانسپورٹ پر بیٹھنے کیلئے تیار نہیں تو حضور، پارٹی کی عزّت بچا لیں۔
مطلب کال واپس لے لیں۔ پی ٹی آئی کے ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کی وہ وڈیو کلپ یاد آ گئی جو اس وقت حد سے زیادہ وائرل ہوئی تھی۔ یہ نوجوان پوش سوسائٹیوں کے خاص ’’دلبرانہ‘‘ لہجے والی اردو میں یہ دردناک فریاد کر رہا تھا کہ ہم انقلاب لانے نکلے ہیں اور پولیس ہمیں لاٹھیاں مار رہی ہے۔ پولیس ہمیں لاٹھیاں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے۔ اس انقلابی ’’مونولاگ‘‘ میں اس نوجوان نے چار ٹھمکے لگائے، تین بار کمر اور دو بار بازو لچکائے۔ یہ اس وقت کے کسی آزادی ماچ کے موقع پر بنائی گئی کلپ تھی جسے پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
دو رکنی وفد کا تعلق بھی ’’پوش کلاس‘‘ سے ہے۔ صرف خبر باہر آئی، کلپ نہیں، اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ گنڈاپور نے کتنی بار کمر لچکائی اور گوہر جاں نے کتنی بار۔ بہرحال، کہا جاتا ہے کہ گنڈاپور زیادہ مشکل میں ہیں۔ ایک طرف وہ مرشد خانے کو جواب دہ ہیں تو دوسری طرف کیفے سندیسہ والوں کے بھی مقروض ہیں۔ دو بار چائے پی چکے ہیں، بل ادا کرنے کا وعدہ دونوں بار کیا، ادا ایک بار بھی نہیں کیا۔
خیر، کوئی ’’انقلاب انگیز‘‘ پیشرفت متوقع ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ 24 کو ہو گی، کچھ کے خیال میں آج یعنی یہ کالم چھپنے کے فوراً بعد یا شاید اس سے ذرا پہلے۔ ادھر اطلاع ہے کہ مرشدانی جی پشاور کے سی ایم ہائوس میں مراقبے پر چلی گئی ہیں یعنی کمرہ بند ہو گئی ہیں۔ یہ مراقبہ آج جمعہ کو مکمل ہو گا، ہدایت کر دی گئی ہے کہ اس دوران کوئی مداخلت نہ کی جائے۔
______
آرمی چیف نے کراچی میں تاجروں سے خطاب کیا۔ ملکی معیشت کے تمام اشاریئے مثبت ہوتے چلے جانے پر اظہارِ اعتماد کیا اور سوال کیا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جو ملک دیوالیہ کرنے کی باتیں کیا کرتے تھے۔
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا، یعنی اس سوال کا کیا جواب دیں کہ وہ لوگ کیا ہوئے، کہاں گئے؟۔ سب کو پتہ ہے کہاں گئے، سرخیل صاحب تو گئے اڈیالہ جیل میں۔ یہ سرخیل یعنی ’’پری وش اعظم‘‘ دیوالیہ ہونے کی خبریں ’’پری ڈکشن‘‘ کے انداز میں دیا کرتے تھے لیکن جیسا کہ بعد میں پتہ چلا، یہ ’’یری ڈکشن‘‘ نہیں، ’’ڈکٹیشن‘‘ تھی کہ شاباش انقلابیو، ملک کو دیوالیہ کرنے پر جٹ جائو۔
اور وہ جٹ گئے۔ کسی نے یورپی یونین کو خط لکھ مارا کہ پاکستان کی برآمدات بند کرو، کسی نے آئی ایم ایف کو کہ پاکستان کا قرضہ روک لو۔ اور ہاں، لال چوبارے والے اس ملنگ کو مت بھولئے گا جو دیوالیہ ، سری لنکا، آگ لگا دو، مار دو کے مردنگ بجاتا اور رزمیئے گاتا گاتا ناکامی اور گمنامی کے نالہ لئی میں جا گرا اور آج کل اس بول کی تصویر بنا ہو کے ہے کہ:
’’سیاست‘‘ ترک کی میں نے ، گریباں سی لیا میں نے
گریباں سے مراد یہاں ہونٹ بھی لئے جا سکتے ہیں۔ بہت کم بولتے ہیں۔ ڈر ڈر کر اور یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ جن کے در کی غلامی تمام عمر کی، انہی نے دھتکار دیا۔ اے غم دل کیا کروں۔