آڈیو لیک کمشن، عدالت کی اتھارٹی کمزور نہیں ہونے دینگے، جسٹس جمال

Nov 22, 2024

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سپریم کورٹ میں سیاسی مقدمات کے لئے بنچ  اور جج فکس کرنے جیسے مبینہ شرمناک اقدامات سمیت عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق متعدد آڈیو لیک ہونے سے متعلق معاملہ کی انکوائری کے لئے کمشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی گئی۔ آئینی بینچ نے کوئٹہ سے'' ایک بچے کے اغواء'' سے متعلق خبر پر اپناپہلا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس کی بازیابی سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے۔ آئینی بینچ نے چوہدری پرویز الہی کی سپریم کورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے ساتھ مخصوص بینچ کے سامنے کچھ مقدمات کی سماعت کے بارے میں ٹیلی فونک گفتگو، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی ساس اور وکیل کی اہلیہ کے درمیان گفتگو، ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی اپنے دوست ابو ذر سے پی ٹی آئی کے ٹکٹوں کی خریدو فروخت سے متعلق گفتگو اور بشریٰ بی بی کی مختلف فرمائشیں کرنے سے متعلق گفتگو سمیت دیگر کئی معاملات سے متعلق لیک ہونے والی'' آڈیو گفتگو '' کی حقیقت جاننے کے لئے سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سابق چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ نعیم اختر افغان اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق پر مشتمل تین رکنی آڈیو لیکس انکوائری کمشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کے خلاف دائر کی گئی عمران خان اور سپریم کورٹ بار کے اس وقت کے صدر عابد ایس زبیری کی آئینی درخواستوں کی سماعت کی تو بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ، کیا آڈیو لیک کمشن اب بھی ایک لائیو ایشو ہے؟ کیونکہ کمشن کے چیئرمین جسٹس فائز عیسیٰ تو ریٹائرڈ ہو چکے جبکہ ایک اور رکن جسٹس نعیم اختر سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے حکومت سے ہدایات کیلئے مہلت دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ مجھے معلوم کرنے دیں کہ کیا حکومت اس حوالے سے کوئی نیا کمشن تشکیل دینا چاہتی ہے؟۔ انہوں نے کہاکہ آڈیو لیکس کے معاملہ پر قانونی نقطہ تو موجود ہے، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اگر نیا کمشن تشکیل پاتا ہے تو یہ مقدمہ توخود بخود ہی غیر موثر ہو جائے گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کمشن کی تشکیل کا کابینہ کا فیصلہ آج بھی موجود ہے۔ جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ، کیا حکومت کمشن کی تشکیل کے لئے ججوں کی نامزدگیاں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے کرے گی؟۔ تو اٹارنی جنرل نے کہاکہ یہ ایک قانونی سوال ہے، تاہم قانون  چیف جسٹس سے مشاورت کا پابند نہیں بناتا ہے جس پر جسٹس جمال  نے ریمارکس دیئے کہ ہم عدالت کی اتھارٹی کو انڈر مائین (کمزور) نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر چیف جسٹس کمشن کیلئے جج دینے سے ہی انکار کر دے تو پھر کیا ہوگا؟۔ بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو اس حوالہ سے حکومت سے ہدایت لیکر آگاہ کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتہ کیلئے ملتوی کردی۔ عدالت نے ملک بھر سے لاپتہ ہونے والے  بچوں کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی تو جسٹس جمال  نے ریمارکس دیئے ایک بچے کے اغوا پر پورا صوبہ بند ہے جبکہ حکومت کو کوئی فکر ہی نہیں، عدالت نے کوئٹہ میں بچے کے اغوا کا بھی نوٹس لیتے ہوئے اس کی بازیابی سے متعلق رپورٹ طلب کرلی۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیئے کوئٹہ میں چھ دن سے ایک اغوا شدہ بچہ نہیں ڈھونڈا جا رہا ہے، احتجاج سے پورا شہر جام ہو چکا ہے، لیکن حکومت کو پروا ہی نہیں ہے، سکول کے بچوں نے بھی جلوس نکالا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا صوبہ خیبر پی کے میں سیکس ٹریفکنگ کو قانونی قرار دے دیاگیا ہے؟۔ اپنی رپورٹ میں کے پی نے سیکس ٹریفکنگ کو زیرو لکھا ہے، زیرو سیکس ٹریفکنگ کیسے ہو سکتی ہے؟۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کیا کسی صوبے میں کوئی ادارہ یا کمشن ہے جو مغوی بچوں کی بازیابی کے حوالے سے کام کررہا ہو؟۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اب تو صوبوں کے پاس اختیارات بھی موجود ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ بچوں کا اغوا ایک اہم ایشو ہے اس پر سرکاری وکلا کی تیاری ہی نہیں ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 2018سے یہ مقدمہ چل رہا ہے اور بچے اغوا ہو رہے ہیں، ہر دوسرا مقدمہ بچوں کے اغوا کا آتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بچوں کے اغواسے متعلق ایک کمیٹی کی تشکیل کا حکم جاری کیا تھا، جس پر درخواست گزار محمد علی نے کہا کہ آج تک وہ کمیٹی  تشکیل ہی نہیں دی گئی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ہمیں رپورٹیں نہیں بلکہ بچوں کے اغوا کا عملی تدارک چاہیے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ میں بینچ کے سربراہ سے درخواست کرتا ہوں کہ تمام پولیس سربراہان (آئی جی کو طلب کیا جائے، ہمارے ملک میں یہ ہو کیا رہا ہے؟۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ صوبہ کے پی، کی رپورٹ میں ہر چیز پر دھول جھونکی گئی ہے، ہر طرف سے بارڈر کھلا ہے تو کیا سب اچھا ہے کی رپورٹ ممکن ہے؟۔ قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں۔ جسٹس جمال نے کہا کہ ایف سی پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ان کا سوشل ویلفیئر میں کیا کردار ہے؟۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کراچی میں بچے ٹریفک سگنلوں پر بھیک مانگتے ہیں، جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بھکاریوں کو بیرون ملک بھیجنے میں تو اب ہم انٹرنیشنل ہو چکے ہیں، بیرون ملک بھکاریوں کا جانا کتنے شرم کی بات ہے؟۔ بعد ازاں عدالت نے  رپورٹ طلب کرتے ہوئے چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے آئی جی اور وفاقی و صوبائی سیکرٹری ہائے داخلہ کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 نومبر تک ملتوی کردی۔ عدالت نے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، امیر حسین بھٹی کی جانب سے اختیارات سے تجاوز سے متعلق مقدمہ کی سماعت کی۔  درخواست گزار نے کہا کہ سابق چیف جسٹس نے ریٹائرمنٹ سے قبل ہائیکورٹ کے ملازمین کو ایڈوانس انکریمنٹ دی ہیں، جسٹس جمال  نے کہا کہ اس بنچ میں موجود کم از کم تین جج، ہائیکورٹوں کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہاکہ اگرچہ چیف جسٹس ہائیکورٹ کے پاس صوابدیدی اختیارات ہوتے ہیں لیکن ہم نے وہ اختیارات بہت محتاط انداز میں استعمال کیے تھے۔ بعد ازاں عدالت نے رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی۔ عدالت نے حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدہ سے ہٹانے کے فیصلے کیخلاف دائر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کی تو جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ اسمبلی میں ووٹ کیلئے ارکان کو ہدایات کون دے گا؟ پارلیمانی لیڈر یا پارٹی ہیڈ؟۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ نظر ثانی میں ختم ہوچکا ہے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے  کہا یہ بڑا اہم معاملہ ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ہم اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس کررہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے موقف اپنایا کہ میں اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتا ہوں، کیونکہ میں اس کیس میں حمزہ شہباز کا وکیل تھا، اس لئے میری جگہ پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کریں گے۔ عدالت نے صوبہ خیبرپی کے  کے سرکاری سکولوں کی حالت زار سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی تو جسٹس محمد علی مظہر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل خیبر پختونخوا  سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد سے اب تک کتنے سکول فعال ہو چکے ہیں؟۔ تو انہوں نے کہا کہ اب تک 463  سکول بحال ہوچکے۔ جسٹس جمال مندوخیل  نے کہا کہ رپورٹ میں لگی ہوئی تصاویر میں بچے تو دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پھر ایسا کریں کہ ان سکولوں میں بھینسیں باندھ دیں، ہم سیکرٹری تعلیم کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیتے ہیں، وہی بتائیں کہ کتنے سکول اب تک بحال ہوئے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ مفت تعلیم آئینی تقاضا ہے، عدالت جب تک مطمئن نہیں ہوگی، اس وقت تک کیس نہیں نمٹایا جاسکتا ہے۔ عدالت نے '' ملک کی اہم شاہراہوں پر ہیوی اوور لوڈ گاڑیوں کو چلانے کی اجازت دیکر سڑکیں تباہ کرنے اور شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے سے متعلق کیس کی سماعت کی  اور  رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے سماعت کے لئے منظور کرلی۔ عدالت نے وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی عوامی عہدہ کے لئے نا اہلیت سے متعلق درخواست کو عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردیا۔

مزیدخبریں