عبد المالک مجاہد
اسلام کی تاریخ بڑی تابناک ہے۔ تاریخ اسلامی میں کتنی ہی ایسی شخصیات گزری ہیں جنھیں ہم روشن ستارے کہہ سکتے ہیں۔ یہ ستارے جب چمکے تو کتنی ہی خلقت نے ان کی روشنی سے استفادہ کیا اور اپنی زندگیاں سنواریں۔ انہی ستاروں میں سے ایک شیخ الاسلام، المحدث، الامام الحافظ، سید العلماء فی زمانہ، ابو عبداللہ سفیان بن سعید بن مسروق الکوفی الثوری ہیں۔ یہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد مضر بن عدنان سے تھے۔
امام سفیان ثوری 97ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات 181 ھ میں 61 یا 62 سال کی عمر میں ہوئی۔ انھوں نے بصرہ میں وفات پائی۔ جب ان کی پیدائش ہوئی تو اس وقت اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کی حکومت تھی۔ ان کے دادا مسروق سید نا علی بن ابی طالبؓ کے ساتھ جنگ جمل میں شریک تھے۔ امام سفیان ثوری کا شمار چھوٹی عمر کے تبع تابعین میں ہوتا ہے، یعنی اس وقت ان کی عمر چھوٹی سی تھی۔ بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کے شوقین تھے۔ ایک استاد سے دوسرے استاد کے پاس جاتے اور علمی پیاس بجھاتے۔ ان کے اساتذہ کی تعداد 600 سے زائد ہے۔ ان کی والدہ کا ان کی تعلیم وتربیت میں بہت زیادہ حصہ ہے۔ وہ انھیں احادیث زبانی یاد کرنے کا شوق دلاتیں اور انعام و اکرام سے نواز تی تھیں۔ ولید بن مسلم کہتے ہیں میں نے امام سفیان ثوری کو مکہ مکرمہ میں فتوی دیتے ہوئے دیکھا، ان کی عمر اتنی تھوڑی تھی کہ داڑھی کے بال بھی ابھی نہیں اگے تھے۔
عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کسی کو منصب قاضی القضاۃ ( چیف جسٹس ) کے عہدے پر فائز کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے حاشیہ نشینوں سے پوچھا: اس منصب کا اہل کون ہے ؟ جواب ملا : امام سفیان ثوری۔ جب انھیں عہدے کی پیشکش کئی گئی تو انھوں نے انکار کردیا۔ خلیفہ نے کہا او لڑکے یہ عہدہ قبول کرو ورنہ مرنے کے لیے تیار ہوجا۔
کہنے لگے کل تک سوچنے کا موقع دیں۔ رات ہوئی تو امام سفیان نے بغداد چھوڑ دیا۔ اپنی سواری پکڑی اور عراق سے چل دیے۔ اب انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ کدھر جانا ہے۔ بس یمن کی طرف منہ کر لیا۔ راستے میں نان و فقہ ختم ہو گیا تو امام سفیان ثوری نے ایک باغ کے مالک سے کہا: مجھے ملازم رکھ لو۔ اس دوران میں ابو جعفر منصور نے ہر طرف اعلان کروا دیا تھا کہ سفیان ثوری کے بارے میں اطلاع دینے والا یاانھیں زندہ یا مردہ لانے والا دس ہزار درہم انعام پائے گا۔
اب باغ کے مالک کو معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہیں۔ باغ کے مالک نے دیکھا کہ یہ شریف آدمی ہیں۔چہرے سے نورانیت چھلک رہی ہے، لہذ اس نے ا پنے باغ کی رکھوالی پر رکھ لیا۔ امام صاحب نے ایمانداری کے ساتھ رکھوالی شروع کر دی۔ ایک دن باغ کے مالک کے پاس مہمان آئے۔ وہ امام صاحب سے کہنے لگا: میرے مہمان آئے ہیں۔ ان کے لیے انگور لاؤ۔ امام صاحب نے ایک بیل سے انگوروں کا گچھا توڑا اور لاکرمہمانوں کو پیش کر دیا۔ مہمانوں نے جب انگورکھائے تو وہ کھٹے تھے۔ مالک کہنے لگا: یہ تو کھٹے ہیں۔ میٹھے انگور لاؤ۔ وہ دوبارہ انگور لائے تو وہ بھی کھٹے تھے۔ مالک نے تیسری دفعہ پھر بھیجا کہ اور انگور لاؤ۔ تیسری دفعہ انگور لائے گئے تو وہ بھی کھٹے نکلے۔ مالک غصے سے کہنے لگا تمہیں کٹھے اور میٹھے انگوروں میں فرق بھی معلوم نہیں۔امام صاحب کہنے لگے: نہیں۔ مجھے تو معلوم نہیں کہ کھٹے کون سے ہیں اور میٹھے کون سے ہیں۔ مالک نے تعجب کا اظہار کیا کہ تمہیں باغ کی رکھوالی کرتے ہوئے اتنا وقت ہوگیا ہے تمہیں اب تک کھٹے اور میٹھے انگوروں میں فرق معلوم کیوں معلوم نہیں ہوسکا ؟ امام صاحب کہنے لگے : میں نے آپ کے باغ سے کبھی انگور نہیں کھائے اسلئے مجھے معلوم نہیں۔مالک نے پوچھا: کیوں بھئی تم نے کیوں نہیں کھائے ؟ امام صاحب کہنے لگے : تم نے اس کی اجازت نہیں دی تھی۔ اب میں اگر بغیر اجازت کے انگور کھاؤں گا تو میرا رب مجھ سے حساب لے گا۔باغ کا مالک یہ جواب سن کر بڑا متاثر ہوا کہنے لگا : یہ سب کچھ خوف الٰہی کی وجہ سے ہے۔ تم تو سفیان ثوری کی طرح ہو۔ اس وقت امام صاحب کی شہرت ایک متقی شخص کی تھی۔ وہ ہر طرف متقی اور اللہ والے مشہور تھے۔ ان کی پارسائی کا خوب چرچا تھا۔ باغ کے مالک کو کیامعلوم کہ یہی سفیان ثوری ہیں۔ وہ باغ میں پانی دیتے رہے پودوں کی حفاظت کرتے رہے۔ باغ کے مالک کی اجازت کے بغیر کچھ نہ کھایا نہ لیا۔ ایک دن باغ کا مالک بازار گیا وہاں دوستوں میں بیٹھا کہنے لگا کہ چند دن پہلے میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا ہے۔دوست کہنے لگا کہ اس کی شکل وصورت بتاؤ،یہ دوست سفیان ثوری کو جانتا تھا۔ اس نے قسم کھائی کہ یہی سفیان ثوری ہیں، چنانچہ کہنے لگا کہ چلو اسے گرفتار کرتے ہیں اور خلیفہ سے انعام حاصل کرتے ہیں۔ جب وہ باغ میں آئے تو امام سفیان ثوری وہاں سے جا چکے تھے۔ اب ان کا رخ یمن کی طرف تھا۔ امام سفیان ثوری جب یمن پہنچے تو فکرمعاش ستانے لگی۔ چنانچہ وہ تعلیمات نبوی کی روشنی میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مزدوری کرکے با عزت روزی کمانے لگے۔ کچھ لوگوںنے ان پر چوری کا الزام عائد کر دیا، امام صاحب کہنے لگے: اللہ کے بندو! میں نے تو چوری نہیں کی۔ لوگوں نے کہا: تم نے کی ہے۔ اختلاف، اصرار، انکار بڑھتا ہی گیا۔آپ کے چہرے پر نوراور علم کی پر چھائیاں تھیں۔ تکرار پر یہ لوگ آپ کو فیصلے کیلئے گورنر کے پاس لے آئے ۔گورنر لوگوں سے کہنے لگا میں اس کے ساتھ علیحدگی میں تفتیش کرنا چاہتا ہوں۔ تم باہر نکل جاؤ۔ گورنر کے پاس کیس آتے رہتے تھے۔ وہ چہروں سے مجرموں کو پہچان لیتا تھا۔ جب لوگ نکل گئے تو اس نے دروازہ بند کر لیا۔ پوچھا: آپ کون ہیں : جواب ملا : عبداللہ۔میں نے آپ کانام پوچھا ہے ؟پھر جواب ملا عبداللہ۔ گورنر نے کہا : ہر شخص ہی اللہ کا بندہ ہے۔ پھر آپ کہنے لگے : سفیان۔جب والد کانام پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا : سفیان بن عبد اللہ۔
گورنرمعن بن زائدہ مسلسل ان سے سوالات کرتا رہا بالآخر آپ نے بتایا ہاں میں سفیان ثوری ہوں۔ گورنر کہنے لگا : امیر المومنین کے حکم پر تمہاری تلاش میں پورے ملک میں چھاپے مارے جارہے ہیں اور تمہارے سر کی قیمت بھی مقرر کی جاچکی ہے۔ آپ کہنے لگے : ہاں میں جانتا ہوں۔ معن بن زائدہ نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہنے لگا : اے سفیان ! جائیں یمن میں جہاں چاہئیں اقامت اختیار کریں۔ اللہ کی قسم ! اگر آپ میرے قدموں میں بھی چھپے ہوئے ہوں تو بھی آپ کو خلیفہ کے پاس نہیں لے جاؤں گا۔ میری طرف سے آپ آزاد ہیں۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی ایسے ہی مدد کرتے ہیں۔
سفیان ثوری باعزت گورنر کے محل سے نکلے کچھ دن یمن میں قیام کیا۔ وہاں ان کا دل نہ لگا۔ گورنر کی طرف سے کوئی پابندی نہ تھی مگر وہ مکہ مکرمہ روانہ ہوگئے۔ حرم میں عبادت کرنے لگے۔ ایک شخص نے دیکھا کہ آپ حرم میں نماز مغرب کے بعد سجدہ میں گئے۔ وہ طواف کرنے لگا۔ سات چکر لگائے مگر آپ نے سجدے سے سر نہیں اٹھایا۔ کم وبیش آدھا گھنٹہ سجدے میں پڑے رہے۔
عالم دین اور معروف شخصیت زیادہ دیر چھپی نہیں رہتی۔ خلیفہ ابو جعفر منصور کو علم ہوگیا کہ سفیان ثوری حرم میں ہیں۔سپاہی حرم مکہ پہنچ گئے اور اعلان کرتے رہے کہ کون ہے جو ہمیں سفیان ثوری کے بارے میں بتائے۔ سفیان ثوری کدھر ہے ؟ بار بار اعلان ہو رہاتھا۔ ابو جعفر منصور مکہ کی طرف آرہا تھا۔ اب اس مشکل وقت میں سفیان ثوری قبلہ رخ ہوئے اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیے۔ اللہ سے فریاد کرنے لگے : ’’اے اللہ !میں تمھیں قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ ابو جعفر کے ساتھ میری ملاقات نہ ہو۔ امام سفیان ثوری بھی یقینا انہی خوش قسمت پارسا ، صاحب علم ، دیانت دار اور ،متقی لوگوں میں سے تھے۔ ان کی دعا قبول ہوئی۔ ابو جعفر کے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی امام سفیان ثوری کی روح پرواز کر گئی۔ ان کا جنازہ حرم مکہ میں لایا گیا اور حرم میں نمازہ جنازہ ادا ہوئی۔ یہ قصہ بے شمار اسباق لیے ہوئے ہے کہ اگر ہم اللہ کی مانیں ، اسے ہر دم یاد رکھیں ،اس کا خوف دل میں بسائے رکھیں ، اس کا ذکر وردِ زبان بنائے رکھیں تو وہ بھی ہمیں یاد رکھے گا اور مشکل وقت میں ہمارے کام آئے گا۔جب ہم اسے پکارتے ہیں تو وہ ہماری پکار ، التجا ،فریاد اور دعا قبول کرتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اللہ والے بن جائیں۔ تب اللہ بھی ہماری ہر بات کی لاج رکھے گا ان شاء اللہ۔
شیخ الاسلام، سید العلماء ابو عبداللہ امام سفیان ثوریؒ
Nov 22, 2024