بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
سورہ آل عمران کی آیت نمبر 134 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''ایسے لوگ جو کہ خرچ کرتے ہیں فراغت میں اور تنگی میں اور غصے کو ضبط کرنے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے نیکو کاروں کو محبوب رکھتا ہے۔لغت میں عفو و درگزر کے معانی معافی ،بخشش اور چشم پوشی کے ہیں ''عفو و درگزر بہترین اخلاقی وصف ہے۔اس سے دوستوں اور عزیزوں کی محبت بڑھتی ہے اور دشمنی اور عداوت دور ہوجاتی ہے۔قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اسکی تاکید کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جن صفات کو پسند فرمایا ہے اْن میں عفو و درگزر بھی شامل ہے۔سورۃشوریٰ آیت نمبر 37 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔اہل ایمان کی صفات اسی سورہ کی آیت نمبر 40میں یوں بیان فرمائی گئی ہیں۔"جو شخص کسی کی خطا معاف کر کے اْس سے صلح کر لے تو اس کا اجر و ثواب اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔کیونکہ اس کا یہ عمل متقیوں کا سا ہے۔"اس سورہ کی آیت نمبر 43میں ارشاد خدا وندی ہے۔"اور جو شخص صبر کرے اور معاف کر دے یہ البتہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔"حضور اکرم ؐ نے قریش کی شدید مخالفت دیکھی تو وادی طائف کا قصد کیا تاکہ وہاں رہنے والوں کو دین اسلام کی دعوت دیں۔طائف کے سرداروں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے آپ ؐ سے نہایت غیر مہذب اور ناشائستہ برتائو کیا۔آپ ؐ پر اتنے پتھر بر سائے کہ آپ ؐ کا جسم مبارک لہو لہان ہو گیا۔حتیٰ کہ آپ ؐ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔اس موقع پر فرشتے نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ اگر آپ ؐحکم دیں تو طائف کے دونوں جانب کے پہاڑوں کو ملا دوں تاکہ سرکش لوگ نیست و نابود ہو جائیں۔مگر پیارے حضور ؐ نے فرمایا میں ان کی بر بادی نہیں بلکہ ان کی اصلاح چاہتا ہوں۔آپ ؐ نے نا صرف اْن کو معاف فرمادیا بلکہ اْ ن کے لئے ہدایت کی دعا بھی فر مائی۔فتح مکہ کے موقع پر صحن کعبہ میں قریش مکہ کا اجتماع تھا۔یہ وہی لوگ تھے جو آپ ؐ کے قتل کے منصوبے بناتے رہے تھے اور بہت سے مسلمانوں کو شہید بھی کر دیا تھا۔انہوں نے حضور ؐ اور مسلمانوں کو اتنی اذیتیں پہنچائی تھیںکہ انہیں اپنے گھر بار چھوڑ کر مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنا پڑی۔وہ لوگ خون و دہشت کی تصویر بنے ہوئے تھے اور ڈر رہے تھے کہ نہ جانے اب ان سے کتنا شدید انتقام لیا جائے گا۔حضور اقدس ؐ نے اْن کی طرف توجہ فرمائی اور پوچھا اے گروہ قریش !تم جانتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا برتائو کرنے والا ہوں۔انہوں نے جواب دیا آپ ؐ نیکی کا بر تائو کریں گے کیونکہ آپ ؐ خود مہربان ہیں اور مہربان بھائی کے بیٹے ہیں۔آپ ؐ نے عفوو درگزر سے کام لیتے ہوئے ان کو معاف فر ما دیا اور قرآن کریم یوسف کی آیت نمبر 92پڑھی۔"کچھ الزام نہیں تم پر آج۔بخشے اللہ تم کو اور وہ ہے سب مہربانوں سے مہربان۔"عفو ودرگزر ایک اخلاقی وصف ہے ،رسول اکرم ؐ کی ذات اقدس قرآن کریم کا عملی نمونہ ہے۔قرآن حق و صداقت کا پیغام ہے اور حضور ؐ اس کے پیغام بر ہیں۔قرآن رشدوہدایت ہے اور آپ ؐ رشد اور ہادی ہیں۔آپ ؐ کے اسوہ حسنہ کاسب سے بڑا پہلو آپ ؐ کی جامعیت اور اکملیت ہے۔آپؐ کی ذات والا صفات اتنی جامع و اکمل اور ہمہ جہت ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو اس سے پوشیدہ نہیں۔قرآن کریم میں اہل ایمان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ حضور اکرم ؐ اور آپ ؐ کے صحابہ کرام کی زندگیوں میں موجود تھیں۔دنیا کی چند روزہ زندگی بسر کرنے کے ساز و سامان حاصل کر نا اصل دولت نہیں ہے۔اصل دولت وہ اخلاق اور اوصاف ہیں جو قرآن کریم کی رہنمائی قبول کر کے مومن اپنے اندر پیدا کر دیتے ہیں۔قرآن کریم کی تعلیمات یہ ہیں کہ اگر کوئی ظالم زیادتی کرے تواس کا انتقام لیتے ہوئے خود ظالم نہیں بن جانا چاہیئے۔عفو ودرگزر کی اسلامی تعلیمات انسانی فلاح کی ضامن ہیں۔جامع ترمذی میں ہے اللہ اس شخص کو جو عفو و درگزر سے کام لیتا ہے اور زیادہ عزت دیتا ہے بظاہر لوگ انتقام لینے میں دنیاوی عزت خیال کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک عزت کاحقدار وہ ہوتا ہے جو انتقام لینے کے بجائے معاف کر دیتا ہے۔یہ حقیقت مومنوں پر اللہ کا عظیم احسان ہے جس کا ذکر قرآن کریم اور حدیث شریف میں خصوصیت کے ساتھ کیاگیا ہے۔رسول اکرم ؐ کی ذات اقدس قرآن کریم کا عملی نمونہ ہے۔آپ ؐ کا رحم و کرم ،جود و سخا ،برد باری اور عفو درگزر تمام دنیاکے لئے بالعموم اور تمام مسلمانوں کیلئے بالخصوص ایک مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتی ہے۔