بانی پی ٹی آئی کی طرف سے 24نومبر کو دی جانے والی احتجاج کی کال سے قبل امریکی کانگریس کے 46 ریپبلکن اور ڈیمو کریٹ اراکین کی طرف سے صدر جوبائیڈن کو لکھاجانے والا خط اس لیے بھی حیران کن ہے کہ اس سے چند ہفتے قبل بھی دونوں بڑی امریکی سیاسی جماعتوں کے اراکین کانگریس اپنے صدر جو بائیڈن کو بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں خط لکھ چکے تھے تو پھر اچانک امریکی اراکین کانگرس کو دوسرا خط لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس وقت ٹرمپ کے بھاری اکثریت کے ساتھ صدارتی انتخابات جیتنے کے بعد صدر جوبائیڈن کی حیثیت ثانوی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ ٹرمپ نے جنوری میں اپنی حکمرانی کیلئے کا بینہ کا انتخاب شروع کردیا ہے۔ ایسے میں جوبائیڈن انتظامیہ 46 اراکین کانگرس کے خط کو سردخانے میں توڈال سکتی ہے اس سلسلے میں وہ شاید پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات پر تبصرے کیلئے بھی وقت نہیں نکال پائے گی۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ خط میں درج مندرجات کو لے کر عالمی سطح پر جاری تبصرے بین الاقوامی سطح پر پاکستان اور پاکستان کے ریاستی اداروں کی بدنامی کا سبب ضرور بن سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس طرح کے خطوط سے بانی پی ٹی آئی کو کسی طرح کا فائدہ ہویا نہ ہوپاکستان دشمن قوتوں کو اطمینان ضرو ر ہوگا جو ایک طرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور خیبرپختوانخواہ میں دہشت گروی کی صورت پاکستان کے خلاف جنگ برپا کیے ہوئے ہیں جبکہ امریکی اراکین کانگرس کے خطوط الٹاپاکستان کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دینے میں لگے ہیں۔
اس حوالے سے سفارتی تجزیہ کاروں کے تبصروں پر نظر ڈالیں تو وہ ان خطوط کو مختصر الفاظ میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ اگر ایک لمحہ کے لیے ان کے موقف کو تسلیم کر لیا جائے توامریکی اراکین کانگرس کی طرف سے کی جانے والی کوششیں درپردہ سودے بازی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتیں۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ جیل سے باہر آنے کے بعد بانی پی ٹی آئی بدلے میں اپنے حمایتی امریکی اراکین کانگرس کو کیا دے سکتے ہیں یا ان کے لیے پاکستان میں کس طرح کی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں؟ صاف ظاہر ہے بانی پی ٹی آئی کو لے کر انسانی حقوق کی خلاف وزیوں کے سلسلے میں امریکی اراکین کانگرس کو لاحق پریشانی غزہ میں اب تک شہید کیے گئے 50ہزار کے قریب فلسطینیوں کیلئے کیوں نہیں۔ جبکہ شہید ہونے والوں میں 70فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اور تو اور غزہ میں گزشتہ ایک برس کے دوران 170صحافی اسرائیلی بمباری اور ہوائی حملوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ مارے جانے والے صحافیوں میں 17امریکی شہریت رکھنے والے صحافی اور فوٹوگرافر بتائے جاتے ہیں۔تو پھر امریکی اراکین کانگرس اس پر پریشان کیوں نہیںہیں؟
اس طرح کے حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بعض عالمی سطح کے سیاسی اور سفارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی صہیونی لابی خطوط لکھنے والے اراکین امریکی کانگرس کی پشت پرہے۔ یہ لابی بانی پی ٹی آئی کو جلد از جلد جیل سے باہر دیکھنا چاہتی ہے۔ اگر ان کے یہ تبصرے کسی خبر کی بنیاد پر ہیں تو یقینا نہ صرف پاکستان بلکہ بانی پی ٹی آئی اور بطور سیاسی جماعت پی ٹی آئی کیلئے بھی خطرناک ہیں کیونکہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو لے کر پوری دنیا میں صیہونیت اور اسرائیل کے خلاف نفرت بڑھتی جارہی ہے۔ امریکہ و برطانیہ میںلاکھوں لوگ سڑکوں پر اسرائیل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔برطانوی پارلیمنٹ میں اسرائیل کے حامی اراکین جب بھی باہر نکلتے ہیں انہیں عوام کی طرف سے طنز اور تلخ سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے عوام ان سے کہیں زیادہ جذباتی ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتے کہ ان کا کوئی لیڈر اسرائیل کی حمایت سے برسرِ اقتدار آئے۔
بانی پی ٹی آئی کے حق میں امریکی اراکین کانگرس کی طرف سے لکھے گئے خطوط کی حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے کردار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں گرفتار سیاسی قیدیوں اور پاکستان میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ وہ پاکستان میں جمہوری اقداراور انسانی حقوق سے متعلق امریکی پالیسیوں کو یکر نظر انداز کرنے کا مرتکب ہوا ہے۔ حالانکہ خط بازامریکی اراکین کانگرس کو خطوط لکھتے وقت امریکہ کی اس پالیسی کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کے تحت کسی بھی ملک کے عدالتی نظام میں مداخلت کا مخالف رہا ہے جبکہ پاکستان کی حالیہ سیاسی صورت حال میں واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے نمائندے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران پاکستان میں قید سیاستدانوں سے متعلق کیے گئے سوالات کے جواب میں بار بار ایک ہی جواب دہراتے رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاستدانوں پر چلنے والے مقدمات وہاں کی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں امریکہ اس میں مداخلت نہیں کرسکتا۔
رہ گئی بات ٹرمپ کے بطو رامریکی صدر حلف اٹھانے کے بعد پاکستان پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دبائو ڈالنے یا ا س حوالے سے سفارتی سطح پر کردار ادا کرنے کی تو امریکہ کے اپنے تھینک ٹینک اس موقف سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ کیلئے فوری مسئلہ اپنے ان وعدوں کی پاسداری ہوگا۔جن کا اعلان وہ جلسوں اورریلیوں میں کرتا رہا ہے۔ان میں امریکہ کے داخلی معاشی اور تارکین وطن جیسے مسائل ، غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کا ایسا حل جو فلسطینیوں کو بھی قبول ہو، یوکریئن روس نہ ختم ہونے والی جنگ۔ اس حوالے سے ٹرمپ مخالف امریکی میڈیا ٹرمپ کے بیانات کوبار بار سامنے لاکر اسے چڑا رہا ہے۔ ٹرمپ کیلئے اسرائیل اور ایران کشیدگی اور چین، روس ، شمالی کوریا سے تاہوان کے لاحق خطرات کہیں زیادہ اہمیت کے حامل مسائل ہیں۔ ہاں اگر پی ٹی آئی کی طرف سے امریکہ میں ’ہائیر‘کی گئی لابنگ فرم اور امریکی کانگر س میں موجود اسرائیل کے حامی اراکین ٹرمپ پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے دبائو ڈالنے میں کامیاب ہوبھی گئے تو دیکھنا ہوگا کہ ٹرمپ پاکستان کے عدالتی نظام پر کس طرح اثر انداز ہوسکتا ہے۔