علامہ اقبال کا آدھے سے زیادہ کلام فارسی میں ہے۔مقام افسوس ہے کہ ہم نے اپنے تدریسی اداروں میں اس زبان کے سیکھنے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کیا۔ ہمارے دو ہمسایوں (ایران اور افغانستان) کی زبان بھی فارسی ہے۔ انگریزی ہمارے کسی ہمسائے کی زبان نہیں لیکن چونکہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے اور اعلیٰ ترمدارج میں ہماری افواج کی زبان بھی انگریزی ہے اس لئے ہم نے اس زبان کو گلے لگایاہواہے، ویسے اس زبان کے کئی فائدے بھی ہیں، جدید عسکری ٹیکنالوجی کا زیادہ ذخیرہ اسی زبان میں ہے۔دوسری طرف فارسی زبان بولنے والے ہمارے دونوں ہمسایوں (ایران اور افغانستان) کی عوامی اور فوجی زبان اگرچہ بھی فارسی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ جتنا پروفیشنل عسکری علم وفن انگریزی زبان میں ہے اتنا فارسی میں نہیں اس لئے بھی ہمیں انگریزی زبان سیکھنے کی ضرورت ہے اوریہ اچھی بات ہے کہ ہم افسروں کے لیول پر اپنی فوج میں اس زبان سے استفادہ کررہے ہیں۔ تاہم انگریزی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے اور انگریزی کے پروفیشنل عسکری ذخیرہ علوم وفنون کو جتنی جلدی ممکن ہوسکے اردو زبان میں ڈھال کر اپنے سولجر کی پیشہ وارانہ استعداد میں اضافے کی سبیل کرنی چاہیے۔
ہمارے دو دوسرے ہمسایوں (انڈیا اور چین) کی زبانیں بھی ہمارے لئے سبق آموز ہیں۔ انڈیا کی عوامی زبان اگرچہ ہندی(اردو) ہے لیکن ان کے افسروں کے لیول پر بھی یہی انگریزی زبان رائج ہے۔ انڈیا کی آبادی چونکہ ہمارے مقابلے میں پانچ گنا زیادہ ہے، اس لئے وہاں انگریزی زبان کی اساس Baseبھی ہمارے مقابلے میں پانچ نہ سہی تین چار گنا زیادہ تو ہے۔ انڈین ملٹری میں افسروں کی تعداد پاک افواج سے چونکہ زیادہ ہے اس لئے بھی وہاں آفیسرز کی سطح پر انگریزی زبان کا چرچا زیادہ ہے۔
جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اسکی قومی اور عسکری زبان چینی ہی ہے اس کو ذولسانیت کاکوئی چیلنج درپیش نہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں ہماری تینوں افواج (آرمی،نیوی اور ایئرفورس) میں چینی ہتھیاروں کی آمد بڑھ رہی ہے۔ پاکستان ویسے تو اس زبان کو سیکھنے کیلئے اپنی سی کوششیں کررہاہے لیکن عوام کی سطح پر چینی زبان کی است وبود تک ہنوز رسائی نہیں ہوسکی۔ ایک طرف CPECکے توسط سے چین کی سول ٹیکنالوجی پاکستان کے روز افزوں ضرورت بن رہی ہے تو دوسری طرف ہماری افواج سہ گانہ میں، جیسا کہ اوپر کہاگیاکہ چینی اسلحہ جات اور سازو سامانEquipment میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ چانچہ زود یابدیر ہمیں سویلین اور عسکری سطوح پرچینی زبان سیکھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی طرف مزید توجہ درکار ہوگی۔ فوج میں اس کیلئے ڈویڑنل لیول پر چینی زبان کی لکھائی پڑھائی اور سکھلائی کیلئے باقاعدہ ڈویژنل بیٹل سکولوں کا ایک سلسلہ قائم کرنا پڑے گا۔یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اس طرف جتنی جلد توجہ دی جائے اتنا ہی ہمارے آنے والی نسلوں کیلئے بہتر ہوگا۔
دوسری طرف ہمیں پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں میں فارسی زبان کو ازسرنو زندہ کرنا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے یکساں نظام تعلیم کا جو پروگرام شروع کررکھاہے اس کا تقاضاہے کہ اردو زبان کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور اس میں جدید ہمہ جانبی ترقی کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ یہ مقصد اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک ہم فارسی زبان کی تدریس کو بھی مڈل سکول لیول پر دوبارہ شروع نہیں کرینگے۔اس کامطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کو سکول کی سطح پر اردو،انگریزی اور فارسی تین زبانوں کی تدریس کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ یہ سہ لسانی کلچر قیام پاکستان کے بعد 1980ء کے عشرے تک باقی رہا لیکن اسکے بعد ہم نے رفتہ رفتہ فارسی زبان کی طرف توجہ نہ دی اور انگلش میڈیم سکولوں کے بخار میں زیادہ مبتلاہوگئے۔علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں جا بجا ایسے موضوعات کا احاطہ کیا ہے جن کا تعلق فوجی علم وفن سے ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کا دور ٹوٹل وار کا دور ہے اس کے ایک بڑے حصے کو ہائی برڈوارفیئر بھی کہاجاتاہے۔ پاکستان کا ہر شہری خواہ اس کا تعلق فوج سے ہویانہ ہو جنگ وجدال کے ہائی برڈ کلچر سے متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکتا۔ہرفوجی آپریشن کو بروئے عمل لانے میں دو عوامل ہمیشہ کارفرمارہے ہیں، ایک تو خالص پیشہ وارانہ امور ہیں جن میں علاقائی اور جغرافیائی صورت حال، فریقین جنگ کی افواج کا تقابل وتناسب، رائج والوقف چھوٹے بڑے اسلحہ جات کا استعمال اور انکی اثرانگیزی، سازوسامان جنگ اور بہت سے انتظامی اور انصرامی Logisticalامور وغیرہ شامل ہیں اور دوسرا پہلو غیرمادی روحانی اور نفسیاتی پہلوہے۔ نپولین نے اس نفسیاتیMoralپہلو کومادی پہلو پر تگنی فوقیت دی تھی۔ اس کا قول ہے کہ اگر ایک ڈویژن فوج کا مورال اور جذبے جوان ہوں تو وہ ان تین ڈویژنوں کو شکست فاش دے سکتی ہے جن کے ٹروپس بددلی کا شکارہوں جن میں عزم وحوصلہ کی کمی ہو اور جن کا جارحانہ جذبہ ماندپڑچکاہو۔میجر(ر)سہیل عامرخان کاخاص نکتے کی جانب دھیان کرانا ایک اہم پیش رفت ہوسکتی ہے۔خدا کرے کہ فارسی کوبھی نصاب میں اسی طرح شامل کیاجائے جس طرح اردو اور انگریزی کو شامل کیاگیاہے۔
حضرت اقبال نے جگہ جگہ اپنے اپنے اردو اور فارسی کلام میں زندگی کے تمام پہلوؤں پر بہت آبدار اشعارکہے ہیں۔