ازحد تکلیف دہ حالات ہیں بدترین سفاکیت قوم کے بہادر بیٹوں کے درپے ہے۔ دہشت گردوں کو کِسی بھی جگہ۔ شہر ۔ ملک میں رہنے کا حق نہیں دینا چاہیے ۔ لازم ہے کہ ’’کمین گاہوں‘‘ کو بھی مکمل طور پر بنیادوں سے اکھاڑ دیں۔ اِس نازک سلامتی کے پہلو پر کِسی جماعت کو قطعاً سیاست بازی کی اجازت نہ دی جائے ۔ پے در پے رونما ہوتے دہشت گردی کے واقعات پر تمام مل بیٹھ کر تدارک کی تدابیر سوچیں ۔ ذاتیات کی قید سے نکلنا ضروری ہے۔ قید سے یاد آیا کہ خبر دی تھی کہ نومبر کے مہینہ سے اہم سیاسی پیش رفت کا قوی امکان ہے۔ ’’قیدی سے آزاد‘‘ تک سبھی اِس ملک کے باعزت باشندے ہیں کوئی غدار نہیں کوئی وطن فروش نہیں۔ پاکستان سب کا یکساں ملک ہے ’’ادارے‘‘ ہم سب کے یکساں ہیں بس خیر خواہی ہونی چاہیے ۔حکومت تمام پارلیمانی نمائیندگی رکھنے والی جماعتوں ۔ علماء کرام اور سماجی و معاشی شعبوں کے قابل ۔ اہل علم ۔محب وطن شخصیات پر مشتمل کانفرنس بلائے ۔ ایک ۔ دو دن بھلے ہفتہ بیٹھنا پڑے ۔ سب مل کر بیٹھ جائیں ۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو صرف اور صرف اپنے مفادات کے مطابق ازسر نو ترتیب دیں ۔ سرحد جُڑے ممالک کے ساتھ باڑ لگانے پر کسی بھی طرح سمجھوتہ نہ کیا جائے ۔ مزید براں سیاسی و سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد پر مشتمل وفود ہمسایہ ممالک بھیجنے کی منظوری دیں۔ علاوہ ازیں تجارت کے معاملہ میں بھی قریبی مارکیٹ کو مدنظر رکھا جائے۔ہمارے لیے قومی سطح پر یہ طے ہونا زیادہ ضروری ہے کہ کِس فیصلہ ۔ پالیسی میں ہمارے لیے فوائد پنہاں ہیں ۔ پاکستان ۔ پاکستانی عوام۔ معیشت ۔ خارجہ پالیسی پر عملی پر ٹھوس فیصلے اب ضرور کر دینے چاہیں ۔ اس سے پہلے داخلی صورتحال کو پُر امن اور پر سکون بنانا اشد ضروری ہے۔ مہنگائی کے معاملہ میں حکومت اگرچہ اقدامات اُٹھا رہی ہے مگر اِس تناظر میں دیکھیں کہ عالمی منڈی میں ’’تیل ‘‘ کی قیمتیں کم ہو چکی تھیں مگر پاکستان میں دوسری مرتبہ اضافہ کر دیا گیا جو کہ اب واپس لینا چاہیے ۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ اتنی بُری طرح جاری ہے کہ ناشتہ کے بغیر لوگ اور بچے دفاتر اور سکول جاتے ہیں ۔ دوپہر کو بھی گیس نہیں ہوتی۔ پاکستان کے مفاد میں حکومت کو ’’ایران گیس پائپ لائن‘‘ معاہدہ پر عمل کر لینا چاہیے اِس کے بغیر گزارہ نہیں ہوگا۔
’’ بول کفارہ کیا ہو؟؟‘‘
بالاآخر رجوع کر لیا۔ دانستہ غلطی تھی یا فنی خرابی باعث غلط بٹن پر ہاتھ جا پڑا۔ سچ سب کو معلوم ہے۔ ہم پہلے ہی مذہب کے معاملہ میں انتہائی حساس درجہ میں رہ رہے ہیں۔دنیا کا واحدایسا ملک جہاں محض ’’افواہ‘‘ پر لوگ ’’چھری‘‘ لیکر بھاگ اُٹھتے ہیں جہاں تحقیق۔ تفتیش کا کوئی رواج نہیں ۔ ایک طوفان اُٹھا اِس طرح کہ روٹی۔ روزگار کو روتے لوگ اپنے ’’پیٹ ‘‘ کو بھول کر حرام۔ حلال کی لایعنی پھیلائی گئی مشق کا حصہ بن گئے۔ شکر ہے کہ غلطی کا احساس ہوگیا مگر ’’بول کفارہ کیا ہو؟؟پہلی مرتبہ معلوم ہو اکہ اب ’’ٹیکنالوجی‘‘ بھی غیر شرعی ہوگئی ۔ اِس خطہ میں سب سے پہلے سامراجی راج کے دوران ’’تعلیم‘‘ غیر شری قرار دی گئی تھی پھر ’’ریل گاڑی۔ ریڈیو ۔ ٹی وی ۔ ایکسرے مشین ‘‘ حرام کہلائے گئے ۔ یعنی ہماری سوچ یہی تھی (اور اب بھی ہے پڑھنے لکھنے کے باوجود) کہ آگے نہیں بڑھنا۔ دقیانوسی کی جامد اپنی سوچ کو بدلنا نہیں بس ترقی یافتہ اقوام کی کامیابیوں کو کُھرچنا ہے نہ ہی پڑھنا ہے نہ ہی نئی پود کو پڑھانا ہے پھر دنیا نے دیکھا کہ اُس حرام چیز یعنی تعلیم کو ہم نے نہ صرف حاصل کیا بلکہ اپنے بچوں کو بیرون ممالک’’ تعلیم ‘‘نامی حرام چیز کی لذت بھی چکھائی کروڑوں روپے کے مصارف سے۔بیمار ہوئے تو غیر شرعی آلات کو خود پر استعمال کر کے ’’حلال ‘‘ سرٹیفکیٹ بھی دیدئیے ۔ ’’سوال‘‘ ہمارے ’’دین حنیف‘‘ میں بنیادی اساس ’’توبہ ‘‘ پر ہے ۔ سچی تو بہ۔ پر توبہ کی قبولیت کی
بھی خوشخبری ہے تو وہ لوگ جو ’’وی ۔ پی ۔این‘‘ غیر شرعی پانے کی تاریخ تک استعمال کر کے گناہ گار ہو چکے ہیں وہ فوری طور پر سچی توبہ مانگیں ۔ کیا طرفہ تماشا ہے ؟؟ کیا معاشرے میں غلط مباحث کی راہ کھولنا جائز ہے ؟؟ بغیر دلائل ۔ بغیر ٹھوس وجوہات کے علمی تفرقہ بازی دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ درست کہ غلطی تسلیم کر لی مگر جو نقصان ۔ سبکی پوری دنیا میں ہو چکی ہے اُس کا کفارہ کون ادا کرے گا ؟؟ جبکہ حکومتی سطح پر بھی ذِمہ دار ’’وزراء کرام‘‘ نے دانشمندانہ یانات دیدئیے تھے۔ کوئی شخص ۔ جماعت ۔قوم کو بتا سکتی ہے (+فتوی دینے والا ادارہ) کہ سُود ۔ زنا۔ شراب ۔ نشہ کِس زُمرے میں آتے ہیں ؟؟ عام مگر سادہ مسلمان تو بخوبی آگاہ ہیں مگر پڑھے لکھے لوگوں کی ذہنی اُپج بالکل مختلف ہے اِس لیے صرف اُنھی کو مخاطب کیا ہے کیا ہمارے ملک میں وہ جنگ جو ’’اللہ اور اُس کے پیارے رسول ﷺ ‘‘ کے خلاف ہے یعنی سود۔ اُس کا خاتمہ ہو چکا ہے؟؟ 28 سال پہلے دئیے گئے فیصلہ کو لٹکانے کے بعد بالاآخر نافذ کرنے کی تاریخ دیدی گئی تھی مگر تازہ ترمیم کے بعد وہ مدت مزید آگے چلی گئی۔ کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شراب کے مٹکے ۔ ڈرم توڑ دئیے گئے ہیں ؟؟ کیا شراب بنانے والے کارخانے مسمار کر دئیے گئے ہیں۔ ؟؟ کیا نشہ آور اشیاء منگوانے ۔ بنوانے ۔ بیچنے والے سب کیفر کردارکو پہنچ چکے ہیں ؟؟ کیا زنا کے اڈے بند کروا دئیے گئے ہیں ؟؟
قارئین کیا متذکرہ بالا بدترین برائیوں ۔ حتمی طور پر طے شدہ حرام کاموں کے مقابلہ میں ایک ٹیکنالوجی زیادہ مضرت رساں تھی اور ہے ؟؟ آلہ یا تعلیم اور ہنر حرام ۔ غیر شرعی نہیں بلکہ اُن کا استعمال ’’بندہ یا بندی‘‘ کِس طرح کرتے ہیں وہ قابل گرفت ہے وہ حدود کے تعین کا معیار طے کرتا ہے۔ ’’سقوط بغدار ۔خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ۔ غرناطہ ‘‘ کا چھن جانا مسلمانوں کی غیر ضروری مباحث ۔ فرقوںمیں تقسیم کی صاف ۔ کُھلی کتابیں ہیں۔ تاریخ کا نوحہ سامنے دھرا ہے اور ہم سبق سیکھنے پر آمادہ نہیں۔ ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے رہنے پر بضد ہیں۔ اپنی غلطیوں پر سوچنے سے زیادہ دوسروں کی کامیابیوں پر سیاہی پھیرنا ۔ یہ ہے ہمارا واحد مگر پسندیدہ مشغلہ ۔ ہر فیصلہ ہر پالیسی صرف سیاست کی عینک سے بنانا ضروری نہیں۔