ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں علی امین گنڈاپور بانی کو بھول کر صوبے میں بدامنی کا رونا روتے رہے
کہتے ہیں ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’تھوتھا چنا باجے گھنا‘ کی مثال ایسے لوگوں پر صادق آتی ہے جو اندر کچھ اور باہر کچھ ہوتے ہیں۔ یا کہتے ہیں ایسے ہی جیسے کھوکھلا چنا یا ڈھول زور زور سے بجتا ہے۔ اندر سے خالی ہوتا ہے۔ یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ خیبر پختونخوا کی اصل حقیقی حکومت کے دعویدار وزیراعلیٰ جو موجودہ حکومت کو نقلی بوگس حکومت کہتے ہیں، ان سے کسی بھی قسم کی راہ و رسم رکھنے کو گناہ کہتے ہوئے اس سے انکار کرتے ہیں مگر جہاں طلبی ہوتی ہے وہاں ضرور جاتے ہیں۔ اپنے بانی کے کہنے کا کہہ کر ہی سہی پہنچتے ہیں وہاں جا کر نجانے کیوں خا موش بت بنے نظر آتے ہیں۔ کاٹو تو بدن سے لہو نہ نکلے۔گزشتہ روز بھی ایپکس کے اجلاس کے لیے تیار ہو کر کنگھی پٹی کر کے سب کو بے وقوف بنا کر یوں نکلے گویا ہنومان لنکا ڈھانے چلے ہیں۔ مگر جب اجلاس میں پہنچے تو وہ ساری اکڑفوں بھول گئے اور جو کہنا تھا وہ بھی نہ کہہ سکے، اردو کے پرانے شاعر مبارک شاہ آبرو نے کیا خوب کہا:
یوں آبرو بناوے دل میں ہزار باتاں
جب رو برو ہو تیرے گفتار بھول جاوے
بھلا کسی کو دیکھ کر ایسی بھی کیا بدحواسی یا غالباً ماحول دیکھ کر ان کا اپنا سافٹ ویئر خود بخود اپ ڈیٹ ہو گیا اور فالتو میموری واش ہو گئی۔ اپنی تقریر میں وہ صوبے میں دہشت گردی، لاء اینڈ آرڈر کا رونا روتے رہے اور جس کا نوحہ پڑھنا تھا، اس کا ذکر ہی بھول گئے صرف اس کے بے گناہ ہونے کی بات کی اور پھر چپ ہو گئے۔ سچ کہتے ہیں، ’خاموشی کو بھی ایک طرزِ بیاں کہنا ہی پڑتا ہے‘ ان کے نتھنے پھولے نہ مونچھیں پھڑکیں نہ منہ سے الجہاد کا نعرہ نکلا۔ ایک چپ سی انھیں لگی رہی۔ علی امین گنڈاپور کو لگتا ہے احساس ہو گیا ہوگا کہ ایک صوبے کی مرکز سے لڑاانے کی پالیسی اب کامیاب نہیں ہوگی۔ ان کا اپنا صوبہ امن و امان کے لیے ترس رہا ہے۔ تعلیمی ادارے اورہسپتال بند ہورہے ہیں اور وہ ساری صوبائی مشینری اور فنڈ دھرنا مارچ پروگرام پر لگا رہے ہیں۔ اس اہم اجلاس میں جس طرح بدامنی اور دہشت گردی میں ملوث افراد سے نمٹنے کے عزم کا اظہار ہوا ہے، اس کے بعد تو اب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو اپنے ارکان اسمبلی کو سمجھنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ جن کے ساتھ وہ سر پر کفن باندھنے اور مارو یا مر جاؤ کا حلف لے کر اب کی بار قیدی کو جیل توڑ کر نکالنے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔ مگر اب ان کے لیے سکیورٹی فورسز اور پولیس سے ٹکرانا آسان نہ ہوگا۔ یہی سوچ کر وہ اجلاس میں بھی ’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنے بیٹھے رہے۔
٭…٭…٭
سموگ کے خلاف مہم جاری رہے گی، مریم اورنگزیب۔ حالت بہتر ہونے پر کاروباری اوقات بڑھا دیے گئے
سموگ سے نمٹنے کے لیے حکومت پنجاب نے جو فوری اقدامات کیے، وہ بروقت اور اچھے تھے۔لیکن ایسا کرتے وقت حکومت یہ بات بھول گئی کہ اس سے جن لوگوں کے بھٹے، فیکٹریاں اور کاروبار متاثر ہوا ہے، روزگار چھن گیا ہے، کیا انھیں پی ٹی آئی والے اب آسانی سے حکومت کے خلاف اپنے احتجاج میں استعمال نہیں کرے گی۔ ضرور کرے گی۔ یہ ناراض لوگ غصے میں آکر اگر احتجاجی جلوسوں میں نکل پڑے تو اس سے اپوزیشن فائدہ اٹھائے گی۔جو حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ سموگ کے مسئلہ پر احتیاطی تدابیر سے نمٹا جا سکتا ہے اور نمٹا جا رہا ہے۔ یہ عمل چند دن لیتا ہے، آگے احتیاط ہو تو آئندہ اس پر قابو پانے میں مدد ملے گی مگر یہ جو ہزاروں افراد اس حکومتی فیصلے کی زد میں آئے، بھٹہ اور فیکٹری مالکان کو چھوڑیں، مگر یہ دیہاڑی دار، مزدوری کرنے والے ملازمت کرنے والے تو کئی روز سے فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کا کیا بنے گا۔ ایسے ہی لوگ آسانی سے غلط کام کرنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں کیونکہ بھوک اور غصہ مل کر عقل کو ماؤف کر دیتا ہے۔ اور انسان اچھے برے کی تمیز کھو دیتا ہے۔ متاثرہ افراد ہمدردی کے مستحق ہیں، ان کی اشک شوئی کی جائے تاکہ وہ غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور سڑکوں پر نکل کر مسئلہ پیدا نہ کریں۔ وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے چاہے نیک نیتی سے کہا کہ سموگ کے تدارک کے لیے اقدامات جاری رہیں گے، یعنی بھٹے‘ فیکٹریاں گرانے کا عمل بند نہ ہوگا اگر وہ ذرا تحمل سے سوچیں تو اس وقت نرمی سے کام لینا ہوگا اور نہ سختی سے سیاسی ماحول بھی گرم ہوگا اور احتجاجی ماحول بھی۔ خیبر پختونخوا میں کارکنوں، ایم این ایز اور ایم پی ایز کو لاکھوں روپے دیے جا رہے ہیں تو کیا احتجاج میں شامل کرنے کے لیے ان متاثرین میں ہزاروں تقسیم نہیں ہوں گے۔ اس لیے یہ وقت تالیف قلوب کا ہے۔ فشار خون بڑھانے کا نہیں۔
٭…٭…٭
چور برطانوی بادشاہ کے محل سے دو گاڑیاں چرا کر لے گئے
جناب یہ ہوتی ہے خودسری یا بہادری۔ انگریز ویسے ہی خود سر ہوتے ہیں۔ جمہوریت نے ان کا دماغ خراب کررکھا ہے۔ وہاں ہر ادارہ چونکہ اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرتا ہے اس لیے لوگوں کو پولیس سمیت کسی ادارے سے خوف نہیں آتا۔ وہاں کی پولیس اپنے شہریوں پر تھرڈ ڈگری استعمال کا یا چھترول کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اسی لیے وہاں منفی سوچ رکھنے والے اپنی بہادری دکھانے کے لیے نت نئے طریقوں سے وارداتیں کرتے ہیں تاکہ ان کو شہرت ملے اور کارنامے پر داد بھی دی جا ئے۔ اس کے باوجود سب کو معلوم ہے کہ برطانوی پولیس بھی دنیا کی ماہر ترین پولیس فورس کہلاتی ہے۔ وہ بڑی سے بڑی واردات کا بھی تاخیر سے ہی سہی، پتالگا ہی لیتی ہے۔ وہاں پولیس تھانوں میں بیٹھ کر گرفتار ملزموں سے کھانا منگوا کر نہیں کھاتی، ان کے پیسوں پر مزے نہیں اڑاتی نا ہی پیسے لے کر غلط سلط پرچے کاٹتی ہے۔ وہ جدید طریقوں سے پوری ایمانداری سے کام کرتی ہے اس لیے جھوٹ، فریب یا مکاری سے انھیں گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب ان چوروں کی ہمت مردانہ کی داد دینی پڑتی ہے جو برطانوی بادشانہ چارلس کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے اور ان کے فارم سے دو عدد گاڑیاں چرا کر لے گئے، پولیس تو چکرا کر رہ گئی ہو گی کہ یہ اندر کیسے داخل ہوئے اگرچہ ان کا گھر کافی بڑا ہے مگر اس کی سکیورٹی بھی تو اتنی ہی کڑی ہوگی۔ ہمارے ہاں دیکھ لیں، بلاول ہاؤس، بنی گالہ، رائے ونڈ پیلس کے اردگرد دور دور تک کوئی بندہ تو کیا پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ کافی دور سے ہی بیریئر لگا کر سکیورٹی والوں نے آنے جانے کے راستوں پر کرفیو لگا رکھا ہوتا ہے۔ یہ سب سکیورٹی کے نام پر ہوتا ہے تاکہ ان محلات میں اور ان میں رہنے والوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ تو پھر یہ برطانوی بادشاہ کے محل کے اردگرد یہ کیسا حفاظتی نظام ہے کہ چور وہاں آرام سے داخل ہو کر دو گاڑیاں چرا کر لے گئے اور کسی کو پتا بھی نہ چلا۔
جمعۃ المبارک ‘ 19 جمادی الاول 1446ھ ‘ 22 نومبر2024ء
Nov 22, 2024