بشریٰ بی بی کے الزام پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ردعمل سامنے آگیا

 بانی پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت گرانے کا الزام امریکا پر جبکہ بشریٰ بی بی نے الزام کسی اور پر لگا دیا، جس پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی ردعمل سامنے آگیا ہے۔  جیو نیوز کے مطابق سینئر صحافی انصار عباسی نے جنرل باجوہ کے قریبی ذرائع کے ذریعے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مئوقف لیا، جس پر جنرل باجوہ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے سعودی عرب سے واپسی پر ہمیں کوئی فون کالز نہیں آئیں۔ بشریٰ بی بی کا بیان جھوٹ کا پلندہ ہے، میں بیت اللہ میں جاکر کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل جھوٹ ہے۔ بلکہ جو یہ ننگے پاؤں مدینہ جانے والی بات کی گئی اس کے بعد ان کو تحائف ملے، ہار اور گھڑیاں ملیں، بلکہ بشریٰ بی بی کی بیٹی کی شادی بھی مدینہ میں ہوئی تھی جو کہ اس ننگے پاؤں چلنے کے بعد ہوئی تھی۔اسی طرح سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا کہ یہ بہت خطرناک الزام ہے، یہ الزام صرف اسلامی ملک سعودی عرب پر نہیں بلکہ اپنے ادارے پر بھی الزام لگایا گیا ہے، جس پر دفترخارجہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی شدید ردعمل آسکتا ہے۔پی ٹی آئی کی موجودہ لیڈرشپ بھی اس بیان پر بڑی اپ سیٹ ہے کہ بی بی نے کس طرح کا الزام لگا دیا؟ اس سے ہر چیز پر پانی پھیر کے رکھ دیا ہے۔ یاد رہے بشریٰ بی بی نے کہا کہ اداروں کو یقین دلاتی ہوں کہ بانی پی ٹی آئی رہائی کے بعد کسی سے بدلا نہیں لیں گے، ہم نے کبھی اپنے ورکرز کو نہیں کہا کہ وہ جہاد کے نعرے لگائیں۔ بشریٰ بی بی نے سنگین الزام عائد کیا کہ بانی جب مدینہ ننگے پاؤں گئے اور واپس آئے تو جنرل باجوہ کو کالز آنا شروع ہوگئیں، باجوہ کو کہا گیا یہ آپ کس شخص کو لے آئے ہیں ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں، بشریٰ بی بی نے الزام عائد کیا کہ باجوہ کو کہا گیا کہ ہم تو اس ملک میں شریعت ختم کرنے لگے ہیں اور تم شریعت کے ٹھیکیداروں کو لے آئے ہو؟ کہا گیا ہمیں ایسے لوگ نہیں چاہئیں تب سے ہمارے خلاف گند ڈالنا شروع کردیا گیا۔ میرے خلاف گند ڈالا گیا اور عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا شروع کردیا گیا۔ بشریٰ بی بی نے عوام کو 24نومبر کے احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل بھی کی اور کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو عوام کو احتجاج کی کال دی ہے۔ جب تک بانی خود تاریخ بدلنے کا اعلان نہیں کرتے تب تک 24 نومبر کی تاریخ کسی صورت تبدیل نہیں ہوگی ۔ ہمارا احتجاج آئین قانون کے مطابق ہوگا، قانون کے مطابق احتجاج سے کسی کو نہیں روکا جاسکتا۔ 

ای پیپر دی نیشن