بین الاقوامی فوج داری عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کے بعد اسرائیلی حکومت نے عدالتی فیصلے کو تبدیل کرانے کے لیے ممکنہ راستوں پر غور شروع کر دیا ہے۔ یہ بات اسرائیلی نشریاتی ادارے نے با خبر ذرائع کے حوالے سے بتائی۔ذرائع کے مطابق ایک زیر غور تجویز یہ بھی ہے کہ اس بات کی سنجیدہ اور آزاد تحقیقات کرائی جائیں کہ آیا اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی پاسداری کی یا نہیں۔اس کے ساتھ ذرائع نے امکان ظاہر کیا کہ ایک بار پھر یہ کوشش کی جا سکتی ہے کہ بین الاقوامی فوج داری عدالت کی اہلیت اور اختیارات کو چیلنج کر دیا جائے۔اسرائیلی حکومت کی قانونی مشیر کے مطابق وہ بین الاقوامی فوج داری عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے اپیل دائر کریں گی۔معلوم رہے کہ مذکورہ عدالت نے ماضی میں اسرائیل کی جانب سے عدالت کے عدم اختیار سے متعلق پیش کی گئی اپیل مسترد کر دی تھی۔ اسی طرح اسرائیل اس عدالت کے منشور پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل نہیں اور نہ اس کا رکن ہے۔نیتن یاہو نے بین الاقوامی فوج داری عدالت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس کے فیصلوں کو شرم ناک اور یہودی مخالف قرار دیا۔ تل ابیب کے مضبوط ترین اتحادی واشنگٹن کی جانب سے بھی ایسا ہی کیا گیا دوسری جانب یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے ذمے دار جوزیپ بوریل نے باور کرایا ہے کہ عدالت کے فیصلے غیر سیاسی اور حقائق پر مبنی ہیں۔واضح رہے کہ بین الاقوامی فوج داری منشور پر دستخط کرنے والے تمام 123 ممالک نیتن یاہو اور گیلنٹ کے خلاف جاری وارنٹ گرفتاری پر عمل کے پابند ہیں۔ اس چیز نے مذکورہ اسرائیلی ذمے داران کو بڑی حد تک محصور بنا دیا ہے۔ بالخصوص فرانس، ہالینڈ اور بیلجیم وغیرہ گذشتہ روز باور کرا چکے ہیں کہ وہ عدالتی احکامات کے احترام کے پابند ہیں۔کئی مبصرین اور ماہرین کے مطابق یہ فیصلے اسرائیل کے خلاف ایک طرح کی بین الاقوامی اخلاقی اور قانونی مذمت کے مترادف ہیں۔ماضی کے تجربات کے مطابق بین الاقوامی فوج داری عدالت کے فیصلوں کے اثرات محدود رہتے ہیں خواہ وہ روسی صدر ولادی میر پوتین سے متعلق ہوں یا سوڈانی صدر عمر البشیر وغیرہ سے متعلق !بین الاقوامی فوج داری عدالت نے گذشتہ روز تصدیق کی تھی کہ "ایسی وجوہات موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ نیتن یاہو اور گیلنٹ نے جانتے بوجھتے غزہ میں شہریوں کو ایسی اشیا سے محروم کیا جو ان کی بقا کے لیے نا گزیر ہیں۔ ان اشیا میں غذا، پانی، ادویات اور طبی لوازمات اور ایندھن اور بجلی شامل ہے ... یہ جنگی جرائم ہیں"۔یاد رہے کہ بین الاقوامی فوج داری عدالت کا قیام 1998 میں 'روم کی اساس' معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا۔ یہ ایک تاسیسی دستاویز ہے جس کے ذریعے رکن ممالک نے جرائم روکنے اور ذمے دار عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں پیش کرنے کا عزم کیا تھا۔ اس پر عمل درآمد 2002 سے شروع ہوا۔ اب تک 124 ممالک اس معاہدے کا حصہ بن چکے ہیں۔عدالت کے پاس اپنی پولیس کا ادارہ نہیں ہے لہذا وہ مبینہ مجرموں کو پکڑنے کے لیے رکن ممالک پر انحصار کرتی ہے۔