کسی کو بھی اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت نہیں دیں گے: محسن نقوی

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد کسی مارچ، دھرنے کی اجازت نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد کسی مارچ، دھرنے کی اجازت نہیں. ہائیکورٹ کے حکم پر100 فیصد عملدرآمد کرائیں گے. کسی کو بھی اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ جانی نقصان کے ذمہ دار اسلام آباد پر دھاوا بولنے والے خود ہوں گے. میرا اڈیالہ سے کوئی رابطہ نہیں، خیبرپختونخوا میں امن وامان کی ذمہ دار صوبائی حکومت ہے، 18ویں ترمیم کے بعد امن وامان کی ذمہ داری وفاق پر نہیں. خیبرپختونخوا حکومت خود ہم پر حملہ آور ہورہی ہے۔محسن نقوی نے کہا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر کارروائی ہوگی. کےپی میں ایک طرف جنازے، دوسری طرف دھاوا بولنے کی تیاریاں ہورہی ہیں، آواز اٹھانے کے لیے ایک فورم موجود ہے. وہاں آواز اٹھائیں، آپ ملک تباہ کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ نہ دکان بند ہونی چاہیے. نہ کاروبار بند ہونا نہ چاہیے، نہ سڑک بند ہونی چاہیے اور نہ موبائل فون سروس بند ہونی چاہیے لیکن بتائیں ہم کیا کریں؟پارہ چنار واقعے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ ’خیبرپختونخوا میں امن و امان کی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے.اس کے باوجود کہ صوبائی حکومت دھاوا بولنے آرہی ہے لیکن کل انہیں دہشت گردی کے پیش نظر ایف سی کی 15 پلاٹون چاہیے تھیں، حالانکہ ہمیں اسلام آباد میں بھی ایف سی کی ضرورت تھی .لیکن ہم نے یہاں روک کر نفری وہاں بھجوائی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’صوبائی حکومت کی معاونت کرنا ہمارا فرض ہے .لیکن صوبائی حکومت سے بھی پوچھا جائے کہ ان کی توجہ وہاں دہشت گردی ختم کرنے پر ہونی چاہیے یا یہاں دھاوا بولنے پر ہونی چاہیے. آج وہاں ایک طرف جنازے ہورہے ہیں اور دوسری طرف دھاوا بولنے کی تیاری ہورہی ہے‘۔انہوں نے کہاکہ ’ وفاقی حکوم کا کام صرف معاونت فراہم کرنا ہے. 18 ویں ترمیم کے بعد امن و امان ہماری ذمے داری نہیں ہے، جو وہ مطالبہ کرتے ہیں ہم اسے پورا کرتے ہیں لیکن امن و امان کی پہلی ذمے داری صوبائی حکومت کی ہے’۔وزیر داخلہ نے کہا کہ 40 جنازے اٹھنے کے بعد وہاں بیٹھے لوگوں کو خود سوچنا چاہیے کہ ان کی پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیے، انہوں نے کہاکہ جو بھی دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرے گا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

 واضح رہے کہ سلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز اسلام آباد کی انتظامیہ کو قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دینے کا حکم دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کی تھی۔تحریک انصاف کے 24 نومبر احتجاج کے خلاف تاجر اسد عزیز کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کو تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا۔عدالت نے قرار دیا تھا کہ پی ٹی آئی احتجاج کیلئے ڈپٹی کمشنر اسلام آبادکو 7 روز پہلے درخواست دے، اجازت ملنے پر احتجاج کیا جاسکتا ہے. وزیر داخلہ یہ پیغام پی ٹی آئی قیادت تک پہنچائیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 5 صفحات پر تحریری حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ امن و امان قائم رکھنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ قانون کے مطابق تمام اقدامات اٹھائے، انتظامیہ کی ذمہ داری ہے قانون کی خلاف ورزی نہ ہونے دی جائے۔تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ یقینی بنایا جائے کہ عام شہریوں کے کاروبار زندگی میں کوئی رخنہ نہ پڑے.پُرامن احتجاج اور پبلک آرڈر 2024 دھرنے، احتجاج، ریلی وغیرہ کی اجازت کے لیے مروجہ قانون ہے، اسلام آباد انتظامیہ مروجہ قانون کے خلاف دھرنا، ریلی یا احتجاج کی اجازت نہ دے۔حکم نامے کے مطابق عدالت کو بتایا تھا ہے کہ 24 نومبر کو بیلا روس کے صدر 60 رکنی وفد کے ہمراہ آرہے ہیں، پی ٹی آئی سے مناسب ہوگا کہ مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے. وزیر داخلہ یا پھر کسی اور کو کمیٹی کا سربراہ بنا کر پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کو انگیج کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن