کراچی بے گناہ معصوم پاکستانیوں کے خون میں نہا رہا ہے وہ کراچی جو شہر قائد ہے وہ کراچی جو پاکستان کا اقتصادی دارالحکومت ہے وہ کراچی جو روشنیوں کا شہر ہوتا تھا کون ہے وہ جس نے اس شہر بے مثال کو اس حال تک پہنچا دیا ہے؟ روز رفتہ حکمران پیپلز پارٹی کے کراچی میں ایک ایم این اے نبیل گبول کہہ رہے تھے حکومت اور انتظامیہ کراچی کے شہریوں کو بچانے میں ناکام ہو گئی ہے اس شہر کو فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ ان کی پارٹی کے مالک و مختار بلوچ قوم کے جدی پشتی سردار آصف علی زرداری نے آٹھ ستمبر کو کراچی کے گورنر ہائوس میں اپنے خصوصی خطاب کے دوران بتایا تھا کہ ’’الطاف حسین کی تنقید ہماری اصلاح کا ذریعہ بنتی ہے انہوں نے جمہوریت کے استحکام کے لئے بہت کام کیا ہے‘‘ اور وہی الطاف حسین روز رفتہ کہہ رہے تھے کہ حکومت کراچی کے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے سید اور گیلانی یوسف رضا کی کابینہ میں شامل الطاف حسین کے ایک وزیر کہہ رہے تھے کہ ہم منتیں کر کر کے تھک گئے ہیں حکومت ہماری کوئی بات مانتی ہی نہیں پیر الطاف حسین کی پارٹی کے ایک مرکزی رہنما کہہ رہے تھے کہ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کراچی کے پانچ ہزار جرائم پیشہ کو پولیس میں بھرتی کیا ہوا ہے اور لیاری کے ٹارگٹ گینگز کے سربراہوں کے ساتھ ان کی تصاویر لیاری کی گلیوں کی دیواروں پر لگی ہیں۔ گاندھی گدی کے وارث اسفند یار ولی کی اے این پی کے صدر بھی کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی حمایت کر رہے تھے۔ اسفند یار ولی بھی گذشتہ تین چار روز کے کراچی کے واقعات پر امن پسند مگرمچھ کے آنسو بہا رہے تھے۔ پیر الطاف حسین اور اے این پی کے مگرمچھ اسفند یار ولی وفاق میں بھی بلوچ سردار کی حکمرانی کے پیل پائے ہیں اور سندھ میں بھی اڑھائی سال سے زیادہ عرصہ سے وہ مل کر این آر او شاہی کا جمہوری کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان دونوں کی طرف سے این آر او شاہ کی حکومت کو ناکام قرار دیا جا رہا تھا اور این آر او شاہ کی اپنی پارٹی کا رکن قومی اسمبلی کراچی کو فوج کے حوالے کر دینے کا مطالبہ کر رہا تھا اور کراچی میں معصوم شہریوں کا خون بہانے والے آزادانہ لوگوں کو مارتے پھر رہے تھے۔ خود حکمران اپنی حکومت کو ناکام قرار دیں اور کراچی فوج کے حوالے کر دینے کی درخواستیں کریں تو اس سے عبرت ناک کوئی صورتحال ہو سکتی ہے؟ الطاف حسین کی تنقید سے حاصل کی جانے والی بلوچ سردار کی رہنمائی کہاں گئی؟ بلوچ سردار کے پٹارو فیم فدائی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جو سندھ کے وہی وزیر داخلہ ہیں جن کو لیاری گینگ وار کے سربراہوں کی سرپرستی اور سند یافتہ ہزاروں جرائم پیشہ کو پولیس میں بھرتی کر لینے کی پیر الطاف حسین کے فدائین سندیں جاری کر چکے تھے فرماتے تھے کہ ’’اگر مفاہمت کی پالیسی نہ ہوتی تو میں سب کو لٹکا دیتا‘‘ تو کیا مفاہمت کراچی کے معصوم بے گناہ شہریوں کا خون بہانے اور بہاتے رہنے پر ہے کراچی کے ان مالکوں کے درمیان؟ دکھائی تو ایسے ہی دیتا ہے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کو معلوم ہے کہ کون کون لٹکائے جانے کے قابل ہے مگر وہ لٹکا نہیں رہے کہ مفاہمت ہے پیر الطاف حسین کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا گینگ وار والوں کے سرپرست ہیں مگر وہ نہ صوبائی حکومت سے علیحدہ ہوتے ہیں نہ وفاقی حکومت سے کہ مفاہمت باہمی یہی ہے۔ اسفند یار ولی مگرمچھ کے اودھا کے آنسو بہاتے ہیں مگر بلوچ سردار کی صوبائی اور وفاقی حکومت سے الگ نہیں ہوتے کہ کراچی مفاہمت کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔ ان سب میں اور کس معاملے پر باہمی مفاہمت ہے؟ اس بارے میں رائے مختلف ہو سکتی ہے لیکن جس بات پر ان کی باہمی مفاہمت میں کوئی شک دکھائی نہیں دیتا وہ ہے کراچی کے معصوم بے گناہ شہریوں کا خون بہانے اور بہاتے رہنے پر باہمی مفاہمت اگر ایسا نہ ہوتا تو وفاقی اور سندھ حکومت میں شامل تینوں پارٹیاں مل کر بھی کراچی میں امن بحال کرنے میں ناکام رہتیں؟ ناممکن؟ اتنے اتنے بڑے بڑے باصلاحیت سیاست کے بحر اللجال کے باقیات مگرمچھ مل کر بھی ایک شہر میں امن بحال نہ کر سکیں۔ کراچی میں جرائم پیشہ لوگوں کا کھوج لگانے کے لئے فوجیوں کی ایک ٹیم مقرر کی گئی تھی اس ٹیم میں شامل فوجی ہپیوں اور کراچی کے آوارہ گردوں والا لباس پہن کر ان کے ساتھ دن رات گزارتے تھے آوارہ گرد جرائم پیشہ کے اڈوں کے قریبی ہوٹلوں میں کھانا کھاتے تھے فٹ پاتھوں پر راتیں گزارتے تھے اور کئی ماہ کی کوششوں سے ان کے اندر گھس کر ان کی سرگرمیوں اور طریقوں کے بارے میں ایک بڑی چشم کشا رپورٹ مرزا اسلم بیگ کو پیش کی تھی۔ مرزا اسلم بیگ نے وزیراعظم پاکستان کو جی ایچ کیو بلا کر وہ رپورٹ دکھائی تھی اور اس کے تیسرے دن ایک بندہ پاکستان سے بھاگ گیا تھا وہ بڑے بھتہ خور گینگز میں سے ایک کا مالک تھا اور کافی دن لندن میں گزار کر واپس آیا تھا۔ اس رپورٹ میں کون کیا ہے اور کون کیا کراتا ہے بہت ہی کچھ تھا ملک کے ایک قومی بنک کے روپے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والی گاڑیوں میں اسلحہ کس کا اِدھر اُدھر جاتا تھا سب کچھ تھا اس میں۔ وہ رپورٹ جی ایچ کیو میں لازماً موجود ہو گی ملک کی افواج کے چیف کمانڈر آصف علی زرداری کو بھی اس رپورٹ کا علم ہے بلکہ کافی علم ہے کیا مرزا صاحب کبھی کسی مضمون میں قوم کو اس رپورٹ کے بارے میں کچھ بتائیں گے۔ کیونکہ وزیراعظم کے علاوہ اس وقت انہوں نے وہ رپورٹ کسی کو دکھائی تھی نہ بتائی تھی کیا ملک کی مسلح افواج کے چیف کمانڈر اور کراچی کے معصوم شہریوں کا خون بہانے کی مفاہمتی پالیسی کے مالک و مختار آصف علی زرداری بتائیں گے قوم کو کہ بھتہ خوری کی گینگ وار کے بانیوں میں کون کون شامل تھا۔