مشرقی پاکستان کیسے بنگلہ دیش بنا۔ یہ ایک ایسی تلخ اور خون آشام کہانی ہے جس کا ذکر کرتے ہوئے زبان اور قلم لڑکھڑا جاتے ہیں۔ یہ سانحہ کیسے رونما ہوا کس کس نے قومی وحدت کی اس تقسیم میں حصہ لیا اس کا جواب شاید کبھی نہ مل سکے کیونکہ ملک توڑنے والے سیاست دان اب قومی ہیرو کے درجے پر فائز ہوکر مقدس گائے کا روپ دھار چکے ہیں لیکن اس سانحہ عظیم کی صورت میں جہاں مغربی پاکستانی شہریوں کو ہولناک قتل عام کا سامنا کرنا پڑا وہاں پاک فوج کے دست بازو بننے والے( بھارت کے صوبہ بہار سے ہجرت کرکے مشرقی پاکستان کو اپنا وطن بنانے والے) بہاریوں کے خون سے بھی بنگالیوں¾ مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے خوب ہاتھ رنگے ۔بہاریوں کو اپنے جان و مال کے نقصان ¾ وحشت اور درندگی کا سامنااس لیے کرنا پڑا کہ وہ پاکستان سے نہ صرف محبت کرتے ہیں بلکہ دشمن میں چاروں اطراف سے گھری ہوئی پاک فوج کا دست بازو اورمعاون بھی تھے۔اس کے باوجود کہ بہاریوں کو شہریت دے کر بنگالیوں کے برابر حقوق دینے کی پیشکش بارہا مرتبہ کی گئی لیکن تمام تر زیادتیوں اور مصائب سے گھبرانے کی بجائے ان کاایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ وہ پاکستانی ہیں اور پاکستان ہی ان کاوطن ہے ۔40 سال سے زائد عرصہ مہاجر کیمپوں میں کیڑے مکوڑوں کی زندگی بسر کرنے والوں کی ایک اور نسل جوان ہوچکی ہے لیکن اب بھی ان کی زندگی کا واحد مقصد پاکستان ہے ۔میاں نوازشریف کے دور میں جناب مجید نظامی کی ترغیب پر چندلاکھ بہاریوں کو پاکستان لاکر لاہور کے علاقے گرین ٹاﺅن ¾ اوکاڑہ اور چیچہ وطنی میں آباد کیا گیا جو آج بھی ان کے ممنون احسان ہیں۔ اگر ہم 30 لاکھ افغانوں کو گزشتہ 25 سال سے پناہ دے سکتے ہیں جو کبھی بھی پاکستانی نہیں بن سکتے توکیا وجہ ہے کہ ان بہاری مسلمانوں کو بطورخاص پنجاب میں لاکر نہیں بسایا جا سکتا۔ پاکستان کے ممتاز صحافی مجید نظامی کو پنجاب یونیورسٹی کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنے کی مبارک باد دینے کے لیے بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی تنظیم کے اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری ہارون الرشید گزشتہ دنوں لاہور آئے انہوں نے جہاں مجید نظامی کی خدمات کو شاندار خراج تحسین پیش کیا وہاں نہایت دکھ سے یہ بات بھی کہی کہ قیدکی ایک مدت ہوتی ہے بنگلہ دیش میں گزشتہ 40 سالوں سے قید بہاریوں کو کب رہائی ملے گی اور کب وہ اپنے وطن پاکستان آکر آباد ہوں گے کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے ۔انہوںنے کہااس کے باوجود کہ بنگلہ میں بہاریوں کو بجلی اور پانی مفت فراہم کیاجارہا ہے لیکن ان کی دلی آرزو اور منزل پاکستان ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ1947ءقیام پاکستان کے وقت بھی قائداعظم کی قیادت میں ہم نے جانی و مالی قربانیاں دیں اور 1971ءمیں بھی پاکستان بچانے کے لئے اپنی جان و مال کے نقصان کی پروا کئے بغیر پاک فوج کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر دفاع پاکستان کی جنگ لڑی لیکن اس کا صلہ مہاجر کیمپوں میں کیڑے مکوڑوں کی زندگی کی صورت میں ملا ہے۔ انہوں نے مجید نظامی کی بہاریوں کو پاکستان لانے کے حوالے سے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اگر کوئی اخبار یا ادارہ بہاریوں کے حقوق کا تحفظ اور ترجمانی کرتا ہے تو وہ نوائے وقت ہے۔ پاکستان کے تاحیات وزیر محمود علی‘ راجہ تری دیو رائے‘ پاکستان کے فضائی سرفروش ائیر کموڈور ایم ایم عالم ¾ افسانہ نگار ام عمارہ کا تعلق بے شک مشرقی پاکستان سے ہی تھا لیکن انہوں نے ہر قسم کی مراعات کو ٹھکرا کر خود کو زندگی کی آخری سانس تک پاکستانی بنائے رکھا بلکہ آج بھی کتنے ہی بہاری اور بنگالی ہیں جو بدترین حالات کے باوجود پاکستان کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے۔ لیکن افسوس ہے کہ امن کی آشا لئے حکومتی سرپرستی میں بھارت کے ہندووں اور سکھوں کے ساتھ تو بغل گیر اور شیر و شکر ہونے کے لیے تمام میڈیائی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ بہاری مسلمانوں کی فریاد اور پکار نہ تو موجودہ حکمرانوں تک پہنچتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اوکاڑہ ¾ چیچہ وطنی اور لاہور کی طرح بہاریوں کو بنگلہ دیش سے باعزت واپس لا کر انہیں پنجاب کے دیگر شہروں میں الگ بستیاں تعمیرکرکے بسا دیاجائے اور امن اور محبت کی آشا کا آغاز ہندووں اور سکھوں کی بجائے جان و مال کی قربانی دینے والے اپنے بہاری بھائیوں کے ساتھ کیاجائے جو آج بھی اپنے چھوٹے چھوٹے جھونپڑوں اور تنگ و تاریک گلیوں میں قائداعظم کی تصویر اور سبز ہلالی پرچم اس امید پر لہرائے بیٹھے ہیں کہ شاید زندگی میں کبھی انہیں سرزمین پاکستان پر قدم رکھنے کی خوشی مل جائے ۔