کسی اٹھاسی سال کے سفید ریش بوڑھے کو منہ پھٹ لکھنا کچھ اچھا نہیں لگ رہا لیکن مشکل یہ آن پڑی ہے کہ اس لفظ کو برتے بغیر کالم نگار ارد شیر کا¶س جی کی شخصیت کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ اس کی بھٹو سے یاری بھی رہی اور پھر اپنی اسی زبان درازی کے باعث اسی کے حکم سے 72 روز کی قید بھی کاٹی۔ اس نے لکھا بھی وہی جسے سچ سمجھا اور جیا بھی ویسے ہی جیسے اس کا جی چاہا۔ اس من موجی کالم نگار کا گالف کلب میں داخلہ محض اس لئے ممنوع ہو گیا کہ یہ لمبی نیکر نہیں پہنتا تھا۔ ویسے لمبی نیکر اس نے کبھی صحافت کی گرا¶نڈ میں بھی نہیں پہنی۔ اسے یہاں سے نکالنا اس لئے ممکن نہ تھا کہ یہ انگریزی زبان میں لکھتا ہے۔ انگریزی زبان میں لکھنے والوں کو بہت آزادی میسر ہے۔ جیسے اردو شاعری میں وہ سب کچھ لکھنا غلط نہیں، جسے نثر میں لکھیں تو یہ جرم محض قابل دست اندازی پولیس ہی نہیں ٹھہرتا، یار لوگ سنگساری کے لئے پتھر روڑے ڈھونڈنے گھروں سے باہر نکل آتے ہیں۔ 11 نومبر 1988ءکو اس نے باقاعدہ پہلا اخباری کالم لکھا۔ یہ پریس کی آزادی کے بارے میں تھا۔ پھر وہ 23 برس کالم نگاری کے میدان میں خوب پریس کی آزادی کے مزے لوٹتا رہا۔ اس نے آخری کالم 25 دسمبر 2011ءمیں لکھا۔ اس کا کہنا تھا ”میرے لئے 86 برس کی عمر میں اب ہفتہ وار کالم لکھنا ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی پرانی سیاست گری اور سیاستدان ماضی کا قصہ ہو چکے ہیں، پھر ان کے بارے میں لکھنے کہ رہ بھی کیا گیا ہے۔ اب مجھے ان کے قصے کہانیاں بار بار دہرانا بور سا کام لگتا ہے۔“ اسے آج کے سیاستدانوں کی کرپشن سے بڑی نفرت ہے۔ سیاستدانوں کو چھوڑیں، ہمارے تاجر اور صنعتکار کون سے بااصول اور دیانتدار ہیں۔ مصر سے سید قطب شہید کی آواز آ رہی ہے۔ ’غیر منصفانہ شرح منافع بھی سود کی طرح ہی حرام ہے۔ منافع بھی سود کے طرح ہی حرام ہے۔ منافع کی غیر منصفانہ شرح کیا ہے؟ اس کا تعین وہ صالح لوگ بھی کرنے کو تیار نہیں، جو ہمارے ملک کی علم فروشی کی انڈسٹری پر قابض ہو چکے ہیں ارد شیرکا¶س جی کا مذہب پارسی ہے۔ انہیں اپنے فرقہ کی روایات اور سماجی خدمات پر فخر ہے۔ یہ احساس تفاخر اس کی تحریروں میں جا بجا جھلکتا ہے۔ ایک بات اس نے تکرار سے لکھی اور وہ اس پر فخر سے اکڑتا بھی ہے اور اینٹھتا بھی۔ لیکن مجھے یہی بات پڑھ کر ازحد شرم محسوس ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں آج تک اس کی پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے کبھی کسی بینک کا قرضہ معاف نہیں کروایا۔‘ اس کا فخر بھی بجا ہے اور میری شرم شرمندگی بھی درست۔ علم سیاسیات کے مسلم فلسفی ابن خلدون حکمرانوں کو تجارت کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ ادھر ہمارے سیاسی حکمران بھی غیر سیاستدان، تاجروں اور صنعتکاروں کو تجارت اور انڈسٹری چلانے کی اجازت کب دے رہے ہیں۔ تمام قانون اور ضابطے محض حکمرانوں کی ذاتی تجارت اور صنعت کے فروغ کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ سیاست میں آنے سے پہلے اور سیاست میں آنے کے بعد مالی حالات میں فرق صاف ظاہر ہے۔ میں نے سیاست کے میدان میں تین ایکڑ کے مالک کو تین ہزار ایکڑ کا مالک بنتے بھی دیکھا ہے۔ پچھلے دنوں لاہور میں دوستوں کی ایک محفل میں تحریک انصاف کے ایک متوقع امیدوار قومی اسمبلی کا ذکر چھڑ گیا۔ ایک شخص بتا رہا تھا کہ اس امیدوار قومی اسمبلی نے اپنی ملز کا 54 کروڑ کا قرضہ معاف کروایا ہے۔ آج کے سنہری جمہوری دور میں ویسے بھی بینک قرضوں کی وصولی نہیں، قرضہ معافی کی مہم زوروں پر ہے۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ راوی کے لہجے میں رشک، مسرت اور حیرت کا تناسب کیا تھا، لیکن میں یہ بات پوری ذمہ داری سے لکھ رہا ہوں کہ میں نے راوی کے لب و لہجے میں نفرت کا شائبہ تک محسوس نہیں کیا۔ ہم نے من حیث القوم اپنے دلوں سے کرپشن کے خلاف تمام نفرت اور کدورت دھو کر انہیں ”پاک صاف“ کر لیا ہے۔ ہمارے ملک میں بینک قرضوں کی معافی بیمار صنعتوں کو صحت بنانے کے لئے نہیں، ان کے مالکان کی گاڑیوں کا ماڈل بدلنے، برانڈ کچھ مزید بہتر بنانے اور ان کے بنگلوں کا سائز کچھ اور بڑا کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ اس ملک میں جو شخص 54 کروڑ کا بینک قرضہ معاف کروا سکتا ہے، اس کی شان و شکوہ، جاہ جلال اور اثر و رسوخ کے سامنے پارٹی ٹکٹ دینے والوں میں بھلا کتنا کس بل ہو گا؟ پارٹی ٹکٹ کا یقیناً وہی حقدار ٹھہرے گا۔ میں اس کے حلقہ کے تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن کے لئے دعائے مغفرت پڑھنے کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں۔ ویسے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی سیاسی جماعت کو قرضہ معاف کروانے والوں کے ساتھ بھی ڈیفالٹروں جیسا سلوک ہی کرنا چاہئے۔ پھر یہ بات بھی تو ہے بقول کالم نگار عبدالقادر حسن، ویسے بھی چیئرمین عمران خان اردو کے دیسی کالم نہیں پڑھتے۔‘ انہیں پاکستان کے سیاسی موسم کے سرد گرم کی خبر ہو گی بھی تو کتنی؟ صرف اتنی ہی جتنی جناب شفقت محمود ”صاحب بہادر“ چیئرمین تک پہنچانا پسند فرمائیں گے۔ کالم ایشیا کے گندے ترین شہر گوجرانوالہ میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں بارے کچھ امید بندھی تو ہے کہ شاید کمشنر عبدالجبار شاہین گوجرانوالہ کے ماتھے پر کلنک کا یہ ٹیکہ مٹانے میں کامیاب ہو جائیں۔ لیکن میرے شہر میں سب کچھ بُرا نہیں ہے، اچھا موسم وہاں بھی آتا ہے۔ پھول وہاں بھی کھلتے ہیں۔ شاعروں پر اچھے شعر وہاں بھی اترتے ہیں ’پس تم اللہ تعالیٰ کی کون کونسی نعمت کو جھٹلا¶ گے‘ میرے بُرے کالم کے آخر میں گوجرانوالہ کے نیئر شہزاد کے چند اچھے شعر :
میرا نہیں وہ اپنا ہی کچھ خیال کرے
اسے کہو کہ تعلق کو پھر بحال کرے
نگاہ یار نہ ہو تو نکھر نہیں پاتا
کوئی جمال کی جتنی بھی دیکھ بھال کرے
ملے تو اتنی رعایت عطا کرے مجھ کو
مرے جواب کو سُن کر کوئی سوال کرے
کلام کر کہ مرے لفظ کو سہولت ہو
ترا سکوت میری گفتگو محال کرے
میں اس کا پھول ہوں نیئر، سو اس پہ چھوڑ دیا
وہ گیسو¶ں میں سجائے کہ پائمال کرے