ڈرون حملوں کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور امریکہ کے خلاف ایک فضا بھی قائم ہو رہی ہے تو اس کو پردہ ڈالنے کے لئے ملالہ پر قاتلانہ حملہ اور چند دوسری بچیوں کو زخمی کرنا ضروری سمجھا گیا ہو اور یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا ملالہ ملالہ کر رہی ہے اور طالبان کی خواتین کو تعلیم سے محروم رکھنے کی مذمت کر رہی ہے اور یہ بھی یقین کرنے لگی ہے کہ پاکستان دہشت گرد ہے یا وہاں دہشت گردوں کی کمی نہیں جو غیر انسانی کام انجام دیتے ہیں اور اس میں زیادہ تر مذہبی تنظیمیں شامل ہیں جن کا صفایا ضروری ہے۔ مزے کی بات ہے کہ کل پرسوں ہی ایک دینی مدرسے پر بھی حملہ ہو گیا اور کئی افراد جاں بحق ہو گئے۔ گویا طالبان جن کو مذہبی انتہا پسند کہا جاتا ہے وہ دین اسلام کے بھی خلاف ہیں اور یہ بھی خبر میں بتایا گیا کہ ملزمان حکومت کے ہاتھ آ گئے ہیں۔ اب یہ ایک ایسی کھچڑی ہے کہ وثوق سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گولی کس جانب سے آئی کس نے چلائی یا چلوائی؟ ملالہ کو اللہ صحت دے۔ اس کے غم میں پوری دنیا شریک ہے اور واویلا کر رہی ہے لیکن ایک طویل عرصے سے امریکہ اور اس کے اتحادی اسلامی دنیا میں ہزاروں ملالاﺅں کو کچل رہے ہیں۔ ان کے غم میں کوئی بھی شریک نہیں۔ ان پر جارحیت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ کسی کے ملک میں جارحانہ گھس کر وہاں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے پر امریکہ اور نیٹو فورسز مسلم کش کارروائیوں پر سب نے لب سی لئے ہیں اور ہمارے اپنے تو پھر ایسے اپنے ہیں کہ پرائے ان پر جان دیتے ہیں۔ وہ پورا پورا تعاون کر رہے ہیں پاکستان کے ان تمام علاقوں میں جہاں پٹھانوں کی آبادی ہے، لڑکیوں کے سکول چل رہے ہیں۔ پشاور، کوہاٹ، مردان، یہاں تک کہ فاٹا میں بھی بچیوں کے سکول موجود ہیں اور وہاں کے بچیوں کے تعلیمی ادارے طالبان کے زیادہ قریب ہیں مگر وہاں انہوں نے کوئی سکول تباہ نہیں کیا اور اگر کوئی ان کو مورد الزام قرار دیتا ہے تو اس کے پاس عینی شواہد اور ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ ملا عمر نے جب حکومت سنبھالی تھی تو اس نے آتے ہی پوست کی کاشت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ بچیوں کے سکول کھولے تھے اور پورے ملک کو اسلحہ سے پاک کر دیا تھا۔ ہماری ملالاﺅں کو کون گولیاں مار رہا ہے۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے سے کون روک رہا ہے جبکہ ہمارے علماءدین بار بار فتوے دے رہے ہیں کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم پر کوئی پابندی نہیں بلکہ شارع علیہ السلام نے تو یہاں تک فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مردوزن پر فرض ہے۔ کیا طالبان جو مسلمان ہیں ان کے فتوے قرآن و حدیث سے حاصل نہیں کئے جاتے؟ بھلا یہ کوئی ماننے کی بات ہے۔ ہم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا رہا ہے جبکہ ہمارے حکمرانوں کو ساری رام کہانی کا علم ہے
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی جانے باغ تو سارا جانے ہے
میڈیا کو ہر خبر کو بہ انداز دگر بھی دیکھنا چاہئے کیونکہ جہاں شارع عام ہو، اور وزارت داخلہ باہر کے عناصر کو داخل کرنے کا کام کرے۔ وہاں تو ایک گھڑمس مچ جاتا ہے کسی بھی الزام کو کسی پر بھی دھرا جا سکتا ہے۔ کیا ہماری فوجی اور سویلین قیادت یہ کہنے یا مطالبہ کرنے کا حق نہیں رکھتی کہ جیسے امریکہ کسی بیرونی قوت کو اپنے ملک میں آپریشن اور ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دے گا ویسے ہی پاکستان بھی ایک آزاد خود مختار جمہوری ملک ہے اگر کوئی شکایت ہے تو وزارت خارجہ کو مطلع کیا جائے، ضروری کارروائی کی جائے گی۔ امریکہ میں توہین رسالت ایک معمول بن چکا ہے اور اوباما نے تو یہ بھی کہا کہ اس فلم کو میں نہیں روک سکتا تو کیا ہمارے سیدالانبیاءکی گستاخی کی اجازت دینے سے بڑھ کر کوئی دہشت گردی ہے مگر اٹھاون اسلامی ملکوں نے خود کو صرف احتجاج تک ہی محدود رکھا۔ کیا امریکہ ہمیں بھی اپنا چلن سکھانا چاہتا ہے۔ کیا یہ بات قرین قیاس نہیں کہ امریکہ، اس خطے میں روس بھارت پاکستان پر مشتمل ایک بلاک بنا کر چین کے آمنے سامنے کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ کیا یہ سب آثار مل کر نیو ورلڈ آرڈر کی تفصیلات ہم تک نہیں پہنچا رہے۔ بے خبری صرف ہمارے عوام میں ہے، جو بے بس کر دئیے گئے ہیں لیکن حکمران سیاستدان بے بس نہیں وہ تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں بلکہ یوں لگتا ہے کہ ہر بڑی پارٹی امریکہ کے حضور خود کو آئندہ انتخابات کے ذریعے حکمرانی کے قابل کوالی فائیڈ ثابت کر رہے ہیں۔ دیکھئے پیا کے من کون کون بھاتی ہے اور کون سہاگن بنتی ہے بہرحال یہ دردِ دل ہے جو لفظوں میں بھی منتقل نہ ہو سکے۔ ویسے مثل مشہور ہے کہ ”اصیل را اشارہ کافی است“ اب تو ہمارے کرتا دھرتاﺅں کی عقیدت و محبت اور جاں نثاری اس مقام پر ہے کہ وہ بلائیں لے لے کے کہتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
شاید یہ وہ دور ہے جب ہادی برحق نے فرمایا تھا: تمہاری تعداد تو بہت زیادہ ہو گی مگر اس کی وقعت جھاگ جتنی ہو گی۔ دعا ہے کہ ملالہ کو اللہ زندگی دے۔ صحت دے اور وہ تعلیم کی اعلیٰ منازل طے کر لے۔ آمین۔
ملالہ ایک نہیں
Oct 22, 2012