عید الاضحی پر مسلسل 6 چھٹیوں سے معیشت کو 440 ارب روپے کا جھٹکا، ایف بی آر کو 50 ارب روپے کا نقصان !
ہمارا ملک خوش قسمتی سے چھٹیاں منانے میں ہمیشہ سرفہرست رہا ہے، کوئی تہوار ہو، خوشی کا موقع ہو یا غم کی تقریب پاکستانی قوم کو سب کے جواب میں صرف اور صرف چھٹی سے غرض ہوتی ہے اور ہمارے حکمران بھی اس معاملے میں بڑے ”دیالو“ ہیں وہ خود بھی قوم کے ساتھ چھٹیاں منا کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم کو ہی دیکھ لیں ہر ہفتے بڑے اہتمام کے ساتھ ہفتہ وار چھٹی پر اسلام آباد سے پورے کروفر کے ساتھ لاہور آتے ہیں اور اطمینان سے اپنی چھٹی کا دن انجوائے کرتے ہیں۔ کیا موجودہ اعصاب شکن حالات میں اس کی کوئی تُک بنتی ہے۔ ہم نے تو یہ سُنا تھا کہ ....
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اُس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
مگر جہاں حکمران چھٹیوں کے دلدادہ ہوں وہاں اگر عوام بھی مفت کی چھٹیوں کے شوقین نکلیں تو مضائقہ کیا ہے۔ دنیا بھر میں کام کام اور صرف کام کے اصول کو اہمیت دی جاتی ہے حکومت ہو یا عوام، سرکاری ہوں یا غیر سرکاری ادارے سب کام پر توجہ دیتے ہیں بلاجواز رخصتوں اور چھٹیوں کا کہیں بھی تصور ہی نہیں۔ پورا ہفتہ چھٹی منانا کسی ترقی یافتہ ملک و قوم کو زیب نہیں دیتا۔ ہمارا ملک تو کسی قطار میں نہیں، یہاں معیشت سے لیکر معاشرت کا بھٹہ بیٹھا ہوا ہے، غربت اور بیروزگاری عروج پر ہے مگر اس کے باوجود ہم کام کی بجائے چھٹیوں پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ 440 جمع 50 ارب روپے بنتے ہیں 490 ارب روپے کون سی معیشت ہوئی جو اتنا بڑا نقصان برداشت کر سکے چونکہ ہماری معیشت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے اس لئے ہم یہ سب صدمات برداشت کر رہے ہیں اور چھٹیاں منا رہے ہیں۔
٭۔٭۔٭۔٭۔٭
امریکی صدر بارک اوباما پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے اعزاز میں جو ڈنر دے رہے ہیں اس کا مینیو بھی سرکاری طور پر یوں شائع کیا گیا ہے جس طرح ہمارے ہاں شادی کے موقع پر دولہا میاں کو کسی شاعر کی طرف سے لکھا ہوا ”سہرا“ فریم کر کے پیش کیا جاتا ہے۔
یہ عنایت خسروانہ صرف میاں نواز شریف کے حصہ میں ہی آئی ہے ورنہ مغربی معاشرے میں اس قسم کے تکلفات کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہ عزت افزائی دیکھ کر تو بہت سے دل جل بُھن کر کباب ہوئے جا رہے ہوں گے اور میاں صاحب خوشی سے پھولے نہ سما رہے ہوں گے کیونکہ ....
آج کل ان کو بہت ہے میری خاطر منظور
یا میری یا میرے دشمن کی قضا آئی ہے
اب دیکھنا ہے اس دعوت کے اندازِ دل رُبائی کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ویسے نواز شریف صاحب واقعی قسمت کے دھنی جہاں بھی جاتے ہیں وسیع سے وسیع دستر خوان ان کے سامنے بچھ جاتا ہے۔
کہتے ہیں ناں ”اللہ شکر خورے کو شکر ہی دیتا ہے“ یہ بات میاں صاحب پر فٹ بیٹھتی ہے پاکستان میں ہوں تو لاہوری کھابوں سے پذیرائی ہوتی ہے، سعودی عرب جائیں تو عربی ڈشیں ان کو ملتی ہیں اب امریکہ پہنچنے تو جو ڈنر کا سرکاری مینیو ان کی میز پر سجا ہے۔ اس میں حلال بکرے کے گوشت، مکس سوپ، مرغ مسلم، سپائی پمپکن سیڈز، کیریٹ جنجر ایسنس، مزیدار امریکن کیک اور شہد الائچی والی آئس کریم کو پڑھ کر میاں صاحب تو کیا ہمارے منہ میں بھی پانی بھر آیا ہے۔ مشرقی اور مغربی کھانوں کا یہ حسین امتزاج دیکھ کر تو ہمیں یہ دسترخوان مشرقی اور مغربی تہذیب و ثقافت کا نمائندہ نظر آتا ہے اور ”چاند تاروں کا زمین پہ ہے ملن آج کی رات“ والی بات درست نظر آتی ہے۔ ڈر ہے کہیں اوبامہ بھی نوازشریف کی وجہ سے خوش خوراکی کی طرف راغب ہو کر اپنی سمارٹنس نہ کھو دیں۔ اس عزت افزائی اور خوش خوراک ضیافت پر تو میاں صاحب کیا ہم خود انکو ”تھینک یُو“ کہنے پر مجبور ہیں۔
٭۔٭ ۔٭۔٭۔٭
اخباری اطلاعات کے مطابق سابق صدر زرداری سیاست سے کنارہ کش ہو کر پیپلز پارٹی کی کمان اپنے فرزند بلاول کو سونپ دیں گے جو 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی پر اپنے لائحہ کا اعلان کر سکتے ہیں !
بات تو یہ درست ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ سانحہ کارساز کی تقریر میں جس طرح بلاول زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو بننے کی کوشش کی اس میں گرچہ بھٹو والی ذہانت تو نظر نہیں آئی مگر اپنے نانا کے سٹائل والی تقریر کا انداز ضرور دکھائی دیا ، خطرہ ہے کہ مولا جٹ کے انداز میں گنڈاسہ لیکر دشمنوں والی تقریر سُن کر کہیں سے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر نے نوری نت کے انداز میں ”نواں آیاں ایں سوہنیا“ کہہ کر بھنگ ڈال دی اور پیپلز پارٹی کے شائقین کے دل موہ کر میلہ لوٹ لیا تو کیا ہو گا۔
اب 27 دسمبر کو بے نظیر کی برسی پر بلاول زرداری نے کیا کھڑاک کرنا ہے اس کا سب کو انتظار ہے۔ زرداری صاحب پہلے ہی ان کو چیئرمین بنا کر اللہ لوک ہو گئے ہیں اور شنید ہے کہ وہ اب باقی عمر قدرت کی دی ہوئی نعمتوں کے مزلے لوٹ کر گزاریں گے۔ مگر قدم بڑھاﺅ نواز شریف کا نعرہ ان کے سیاست میں موجود رہنے کی طرف اشارہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک اور رہنما مخدوم شہاب کہتے ہیں کہ بلاول الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے اگر یہ ہو گیا تو ہونہار بروا کے اس چکنے چکنے پات کے گن مزید کھیلیں گے۔ کیونکہ اس طرح اس کی سیاسی تربیت بھی ہو جائے گی۔ آخر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی تو شہرت اپنے مربی صدر ایوب خان کے خلاف اپوزیشن لیڈر بن کر ہی پائی تھی۔
منگل ‘ 16 ذی الحج 1434ھ ‘ 22 اکتوبر2013
Oct 22, 2013