وطنِ عزیز پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں کسی بھی دور میں گڈ گورننس (اچھی حکمرانی) کا چلن عام نہیں ہو سکا ہر دور میں حکمرانوں کی طرف سے گڈ گورننس کے دعوے ضرور کیے جاتے رہے ہیں لیکن عملاً اُن کا اندازِ حکمرانی ایسا رہا ہے جس کا گڈ گورننس سے دور دور کا بھی واسطہ کبھی نہیں رہا۔ پاکستان میں گڈ گورننس کا نہ ہونا صریحاً زیادتی اور نظریہ پاکستان سے انحراف کے مترادف ہے۔
گڈ گورننس کے فقدان کے حوالے سے ماضی کے ادوار کا تذکرہ کرنا لاحاصل ہو گا دیکھتے ہیں کہ موجودہ برسرِ اقتدار جماعت مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنے انتخابی وعدوں اور انتخابی منشور میں گڈ گورننس کے بارے میں کیے جانے والے دعوﺅں کو پورا کرنے میں کہاں تک کامیاب ہے۔ وفاق اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کو قائم ہوئے پانچ ماہ ہونے کو ہیں یہ کچھ کم عرصہ نہیں اس دوران اچھی حکمرانی (گڈ گورننس ) اور ماضی کی ابتر صورتحال کے مقابلے میں بہتر صورت کا عکس کاروبارِ مملکت اور حکومتی فیصلوں میں واضح جھلکنا چاہیے تھا لیکن یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو پایا ہے۔
مئی 2013 ءکے انتخابات میں عوام نے پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو مسترد کر کے مسلم لیگ (ن) کو واضح برتری دلائی تو اس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ صرف مسلم لیگ (ن) ہی میاں نواز شریف کی قیادت میں ملک و قوم کو درپیش مسائل و مشکلات سے نجات دلا سکتی ہے لیکن سچی بات ہے کہ ایک دو معاملات کو چھوڑ کر بحیثیت مجموعی حکومت کی کارکردگی مایوس کن ہے اور ایسا کچھ بھی سامنے نہیں آیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ مسلم لیگ (ن) نے گڈ گورننس کی بنیادیں رکھ کر ملک و قوم کی مشکلات اور مسائل کو ختم کرنے یا کم کرنے میں کچھ پیش رفت کی ہے بلکہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ عوام کی مشکلات اور مسائل میں پہلے سے بھی اضافہ ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اب تک جو اقدامات کیی ہیں یا انتظامی فیصلے کیے ہیں وہ کسی صورت میں بھی گڈ گورننس کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے حلف اُٹھانے کے چند ہی دن بعد وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو پارلیمنٹ سے بجٹ کی رسمی منظوری سے قبل ہی جی ایس ٹی کی شرح میں اضافہ کر کے اُسے سترہ فیصد کر دیا گیا۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے پانچ سو ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کا عذر پیش کیا گیا۔ جوں توں کر کے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے آئی پی پیز کو پانچ سو ارب روپے ادا کر دئیے گئے لیکن بجلی کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہ کیا جا سکا جس سے لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں قابل ذکر اور واضح کمی آ سکتی۔ اب اقتصادی مشکلات کا رونا روتے ہوئے بجلی کے بلوں میں ہوش ربا اضافہ اور عوام کو دی جانے والی سبسڈی کا واپس لینا کسی صورت میں بھی گڈ گورننس میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کم زیادتی کی بات نہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط اور ہدایات جو آئی ایم ایف سے 6.7 بلین ڈالر کا قرض لیتے ہوئے حکومت نے تسلیم کیں پر عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی کے نرخوں میں سو فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ مان لیا حکومت کو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں (IPP's ) سے مہنگے داموں بجلی ملتی ہے لیکن گڈ گورننس کا تقاضہ یہ نہیں کہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا جائے بلکہ بجلی کی چوری اور لائن لاسز(Line Losses ) کی صورت میں ہونے والے بھاری نقصانات کے ازالے اور ہر ماہ بااثر افراد اور اداروں کی طرف سے بجلی کے بلوں کی عدم ادائےگی کی وجہ سے ہونے والے کروڑوں روپے کے نقصانات کو ختم کرنے کیلئے موئثر اور ٹھوس اقدامات جو سامنے نظر آ رہے ہوں کا نفاذ گڈ گورننس کہلا سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی گڈ گورننس نہیں کہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود آپ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافوں پر اضافے کرتے جائیں۔ تیل اور گیس کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کما رہی ہوں اور اوگرا کے اعلیٰ عہدیداروں کی ملی بھگت سے قدم قدم پر کروڑوں اور اربوں روپے کی بدعنوانی اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی وارداتیں سرِ عام ہو رہی ہوں اور حکومت کا سارا دھیان عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے پر لگا ہوا ہو تو اسے گڈ گورننس نہیں کہا جاسکتا۔
گڈ گورننس کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف کا نام بطور ِ مثال پیش کیا جاتا ہے لیکن اب اُن کو کیا ہو گیا ہے کہ اُن کی پولیس چوکوں ، چوراہوں میں ناکے لگانے یا کم عمر موٹر سائیکل سواروں کو روک کر اُن سے بھتہ وصول کرنے کیلئے تو ہمہ وقت تیار رہتی ہے لیکن گلی محلوں، آبادیوں یہاں تک کہ بارونق شاہراہوں پر دن دہاڑے چوری، ڈکیتی، ڈاکہ زنی، پرس اور موبائل چھین کر بھاگنے، عورتوں کے زیورات اُتروانے، گاڑیاں چھیننے اور بھتہ وصولی کی جو وارداتیں عام معمول بن چکی ہیں اُن کی طرف اس کا دھیان نہیں جاتا۔ میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کیلئے یہ صورتحال یقینا چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے
وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اُنکی حکومتی ٹیم کی یقینا اپنی ترجیحات ہونگی اور وہ اُس کے مطابق آگے بڑھ رہے ہوں گے لیکن کچھ امور ایسے ہوتے ہیں جو سامنے نظر آتے ہیں اور اُنھیں چھپایا نہیں جا سکتا۔ لگتا ہے میاں صاحب کو اہم فیصلے کرنے میں کوئی جلدی نہیںخواہ قومی زندگی پر اس کے کتنے ہی منفی اثرات کیوںنہ مرتب ہورہے ہوں۔ نئے آرمی چیف اور چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے ناموں کے اعلان میں تاخیر کی وجہ سے کئی اُلجھنیں پیدا ہوئی ہیں اسی طرح بہت سارے اہم اور اعلیٰ ترین سرکاری عہدے خالی پڑے ہیں اس سے بھی حکومتی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے۔ اہم ملکوں میں سفیروں اور ہائی کمشنروں کی تقرری میں تاخیر سے بھی اچھاتاثر قائم نہیں ہوا ہے۔ وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم کا دفاع اور امور ِ خارجہ کی وزارتیں اپنے پاس رکھنا بھی گڈ گورننس نہیں کہلا سکتا۔ سندھ اور خیبر پختونخواہ میں وفاق کے نمائندوں یعنی نئے گورنروں کے تقرر میں تاخیر اور پنجاب اور بلوچستان بالخصوص پنجاب میں نئے گورنر کی تعیناتی میں عجلت سے بھی کئی مسائل اور مشکلات نے جنم لیا ہے اور میاں نواز شریف کے ایک انتہائی وفادار اور جانثار قلمکار اور کالم نگار کے لہجے اور اندازِ تحریر میں بین السطورایک ایسی تلخی در آئی ہے جس کو اُنہیں گورنر یا گورنر سے بڑے عہدے کی پیشکش کر کے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
میاں نواز شریف اور اُن کے بعض ساتھےوں کے مائنڈ سےٹ (Mind Set ) کا جو تاثر قائم ہوتا جا رہا ہے وہ بھی گڈ گورننس کے حوالے سے کوئی اچھی علامت نہےں۔ عام طور پر ےہ سمجھا جانے لگا ہے کہ مےاں صاحب کا انداز مطلق العنان بادشاہوں جےسا ہے۔ من مانے فےصلے کرتے ہےں اور کسی کی رائے کو اہمےت دےنے کےلئے تےا رنہےں۔ اسی طرح اُن کے ساتھےوں کے بارے مےں بھی ےہ بات پھےلتی جا رہی ہے کہ اُنھےں عوام کے جذبات و احساسات کی کوئی پرواہ نہےں۔ حکومتی اخراجات مےں کمی کے دعوﺅں کے باوجود شاہانہ اخراجات اور اللو ںتللوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ مےاں صاحب محترم کو قبل اس کے کہ معاملات بگاڑ کی حدوں کو چھونے لگےں اس طرف توجہ دےنی ہوگی۔ مےاں صاحب نے وزےر اعظم ہاﺅس اور وزےر اعظم سےکرےٹرےٹ (آفس) کے اخراجات مےں معتدبہ کمی کر کے جو روشن مثال قائم کی ہے دےگر وزارتوں اور محکموں کو اس کا پابند کرنا ہو گا۔ اس سے ےقےنا گڈ گورننس کا تاثر اُبھرے گا تاہم مےاں صاحب کو بےرونی دوروں پر اپنے اہلِ خانہ بالخصوص بےٹوں ، بےٹےوں اور اُن کے بال بچوں کے ساتھ لے جانے پر اور اہم مذاکرات اور فےصلوں مےں اُن کو بطورِ مذاکرات کار شرےک کرنے کے رجحان کی بھی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی۔