بھارت کی خفیہ ایجنسی ”سی بی آئی“ کے خدوخال!!

بھارت کی 2 خفیہ ایجنسیوں ”را“ اور ”آئی بی“ کے بارے میں ہر خاص و عام واقف ہے مگر بھارت کی ان دونوں ایجنسیوں سے کہیں بڑی ایک ایجنسی ”سی بی آئی“ جس کا مخفف ”سنٹرل بیورو آف انٹیلی جنس“ ہے سے بہت کم لوگ آگاہی رکھتے ہیں۔ یہ تنظیم ”آئی بی“ اور ”را“ کی نسبت حجم میں بڑی اور جدید حساس آلات سے لیس ہے اور اس کا نیٹ ورک بھی دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ بھارت کی یہ خفیہ تنظیم اپریل 1963ءمیں عمل میں آئی تھی۔ اس ایجنسی کے ہاتھ کتنے لمبے ہیں‘ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بھارتی شپنگ کمپنی کے چیئرمین ڈاکٹر دھرما تیجا نے 1966ءمیں کروڑوں روپے کا فراڈ کیا تھا مگر اس کا کہیں سراغ نہ لگ سکا تھا۔ اس ایجنسی نے اپنے خفیہ فنڈ سے بھاری رقوم ادا کرکے ٹوکیو‘ نیویارک‘ لندن‘ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا میں مقیم اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اس امر کا سراغ لگا لیا تھا کہ ڈاکٹر تیجا اپنی خوبصورت بیوی کے ساتھ نیویارک میں کہاں رہائش پذیر ہے؟ چنانچہ ایجنسی نے پلک جھپکنے میں موصوف کو اس کی رہائش گاہ سے گرفتار کرکے اسے بھارت لے جانے کیلئے امریکی عدالت سے اجازت لے لی۔ دریں اثنا تیجا کا پورا خاندان روپوش ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ موصوف نے کوسٹاریکا کے سابق صدر لیوز میگرز سے دوستانہ تعلقات استوار کرکے انہیں انتخابات لڑنے کیلئے کثیر مالی مدد کی جس کے باعث تیجا کے خاندان کو بھارت لانا اس ایجنسی کے بس میں نہ رہا۔ وہاں کی عدالتوں نے تیجا خاندان کو بھارت کے حوالہ کرنے سے انکار کر دیا۔ البتہ تیجا کے خلاف بھارت میں مقدمہ ضرور چلا اور اسے مختلف مقدمات میں طویل سزا اور کثیر مالیت کی فوری ادائیگی کا حکم بھی سنایا گیا۔ یاد رہے کہ بھارت نے اس ادارے کو امریکی خفیہ ادارے ”ایف بی آئی“ کی طرز پر منظم کرنے پر بے تحاشا رقم خرچ کی تاکہ وہ بین الاقوامی معیار کی ایک خفیہ تنظیم ثابت ہو سکے۔ پتہ چلا ہے کہ بھارت اس ایجنسی کو مزید وسعت دینے پر اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ خرچ کر رہا ہے تاکہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کر سکے۔ اس تنظیم کی پراسراریت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اندرا حکومت کے دور میں ایک ”شاہ کمیشن“ تشکیل دیا گیا تھا جس کے روبرو ”سی بی آئی“ کے سابق ڈائریکٹر ڈی سین نے بیان دیا تھا کہ 7 سال کے طویل عرصہ تک اس ایجنسی کو چلانے کے باوجود ان کو اس بات کا علم نہ ہو سکا تھا کہ اس ایجنسی کو بعض دیگر خفیہ ہاتھ بھی چلاتے رہے ہیں جو کبھی بھی منظرعام پر نہ آسکے ہیں جس سے اس ادارے کی حساسیت کا اور اس کی رازداری کا پتہ چلتا ہے۔ یاد رہے جنتا حکومت نے بھی اس ایجنسی کو مزید فعال بنانے میں کثیر سرمایہ کاری کی تھی تاکہ وہ اس ایجنسی کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر سکے۔ جنتا حکومت کے بعد جب دوبارہ اندرا حکومت برسراقتدار آئی تھی تو اندرا حکومت نے بھی اس کی مزید فنڈنگ کی اور اسے ایف بی آئی کے ہم پلہ لیبارٹری جہاں ”فرانزک“ کا کام ہوتا ہے تیار کرکے دی۔ اس وقت ”سی بی آئی“ کے 7 ڈویژن ہیں جن کے ذمے تحقیق و تفتیش کے نوع نوع کے کام ہیں‘ کہا جاتا ہے کہ اب ”سی بی آئی“ کی لیبارٹری ”سکاٹ لینڈ یارڈ“ کی لیبارٹری سے بھی زیادہ جدید خطوط پر استوار ہے۔ اطلاعات کے مطابق ”سی بی آئی“ کے پاس جھوٹ پکڑنے والی مشین بھی ہے جس پر ملزم کو بٹھا دیا جاتا ہے اور پھر اس سے سوال کیا جاتا ہے یہ مشین ملزم کے جسم کے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیتی ہے اور بتاتی ہے کہ ملزم کتنے فیصد جھوٹ اور کتنے فیصد صاف گوئی سے کام لے رہا ہے۔ ”سی بی آئی“ کی مذکورہ فرانزک لیبارٹری ملزموںسے راز اگلوانے کیلئے فرانس‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور روس کی ”سیکرٹ سروسز ایل ایس مرکبات“ بھی استعمال کرتی ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان کا روپ دلانے میں اس ایجنسی نے اپنی قابلیت کے تمام جوہر دکھائے تھے۔ راقم نے کینیڈا میں بھی بھارت کی اس ایجنسی کی خفیہ کارروائیوں کے جو قصے سنے ہیں‘ تنگئی وقت کے باعث انہیں زیرنظر کالم میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ علاوہ ازیں ایران میں بھی اس ایجنسی کی کارروائیوں کے جو واقعات راقم الحروف کو بتائے گئے ہیں‘ ان سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ”سی بی آئی“ بھارت کیلئے وہ وہ کام کر رہی ہے جو پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کیلئے ضرور ضرر رساں ثابت ہو سکتی ہیں جس سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ خدا معلوم اب تک یہ ایجنسی ہماری جغرافیائی حدود کے اندر اپنی چیرہ دستیوںکے باعث کیا کیا اہداف حاصل کر چکی ہے؟ اور کتنے پر عمل پیرا ہے؟ بحرطور اس بات کو ہم فراموش نہیں کر سکتے کہ بھارت ہمارا کبھی بہی خواہ نہ ہو سکتا ہے۔ یہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی کج فہمی ہے کہ وہ بھارت کو اپنا خیرخواہ سمجھنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے ہوئے ہیں جبکہ بھارت آج بھی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے سے باز نہ آرہا ہے۔ پاکستان کو ایک دہشت گرد‘ رجعت پسند‘ قدامت پسند اور انتہاپسند تک قرار دلانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے جس سے اس کی اسلام دشمنی کی بو آتی ہے کیونکہ اس کی رگوں میں خون نہیں پانی دوڑتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کو بھارت کی چیرہ دستیوں سے خبردار رہنا چاہئے اور اس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھاتے وقت قیام پاکستان کے مقاصد کو فراموش نہ کرنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن