بھارتی حکام نے ہاکی انڈیا لیگ کے دوسرے فیز میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ہندوانہ تعصب اور پاکستان کے بارے میں اپنی تنگ نظری کا ایک بار پھر واضح اظہار کر دیا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ جو جنوری میں شروع ہو گا اور جس کے لئے کھلاڑیوں کی نیلامی 18 نومبر کو ہونا تھی، اب اس میں پاکستان کے ہاکی پلیئرز کو نہ بُلانے کا واضح اعلان کر دیا گیا ہے۔ ہاکی انڈیا لیگ کے اسی سال کی ابتداءمیں ہونے والے پہلے ایڈیشن میں 9 پاکستانی کھلاڑیوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ان کے ساتھ باقاعدہ معاہدے کئے گئے اور مختلف ٹیموں میں ان پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل کر لیا گیا تھا۔ مگر ہاکی انڈین لیگ کے عہدیداروں کے اس اقدام کے خلاف انتہا پسند ہندو تنظیموں نے خوب واویلا کیا اور پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت پر میچ نہ ہونے دینے کی دھمکیاں دیں۔ چنانچہ حکام نے پاکستانی کھلاڑیوں کو کوئی میچ کھلائے بغیر ہی واپس روانہ کر دیا تھا۔ اس بار اُنہوں نے یہ ”خطرہ“ بھی مول لینا گوارا نہیں کیا اور پاکستانی کھلاڑیوں کو شامل نہ کرنے کا پہلے ہی اعلان کر دیا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں 12 ملکوں کے 59 کھلاڑیوں کو دعوت دی گئی ہے مگر صرف پاکستان کو ٹورنامنٹ سے الگ رکھ کر پاکستان دشمنی کا واضح پیغام دیا گیا ہے۔
بھارتی حکام کی طرف سے اس طرح کے اقدامات کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے وہ یونہی پاکستان کے خلاف بغض، نفرت اور تعصب کا اظہار کرتے رہے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے ہاں ایسے بہت سے عناصر موجود ہیں جو متعصب ہندو ذہنیت اور بھارتیوں کی پاکستان دشمنی کے بار بار اظہار کے باوجود ہم وقت بھارت سے دوستی کا راگ الاپتے رہتے ہیں، امن کی آشا اور فیورٹ نیشن قرار دینے کی باتیں کرتے ہیں، شاید ان لوگوں کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے کہ اُنہیں بھارتیوں کا یہ تعصب اور نفرت سے بھرا چہرہ نظر ہی نہیں آتا۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہماری حکومت اور ہاکی کے عہدیدار بھی بار بار کی ذلت اور پاکستانی کھلاڑیوں کو بلانے کے باوجود رسواءکرنے کے واقعات پر چشم پوشی اختیار کئے بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر عہدیدار بھی بھارت کے ساتھ دوستانہ روابط پر زور دیتے ہیں۔ امن پسندی اچھی چیز ہے مگر قومی خودمختاری اور وقار کی قیمت پر دوستی نہیں کی جانی چاہئے۔ پاکستانی ہاکی پلیئرز کے ساتھ ذلت آمیز سلوک پر حکومتی اور ہاکی فیڈریشن کی طرف سے آواز اُٹھائی جانی چاہئے، یہ کھلاڑی پاکستانی ہیں نہ کہ کسی غیر ملک کے، لہٰذا بھارتی حکام کے اس معاندانہ رویہ کی بھرپور مذمت کی جانی چاہئے۔
پاکستان کے 9 ہاکی پلیئرز بن بلائے مہمان بن کر ہاکی انڈیا لیگ کھیلنے نہیں گئے تھے اُنہیں بھارتی حکام نے خود دعوت دی تھی، اُن کے ساتھ معاہدے کئے تھے اور بعد ازاں اُنہیں بغیر کھلائے ہی واپس بھجوا دیا گیا تھا۔ اب دوسرے اڈیشن میں بھی پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ پاکستانی کرکٹ سٹارز کے ساتھ بھی بھارت کے عہدیدار ایسا ہی سلوک کرتے آئے ہیں اور اب ہاکی پلیئرز کو بھی اپنی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ پاکستانی حکومت اور ہاکی فیڈریشن کو اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ ہاکی انڈین لیگ کے عہدیداروں کی تعصب پر مبنی کارروائیوں پر خاموشی اختیار کرنے کے بجائے سفارتی اور عالمی سطح پر معاملے کو اُٹھانا چاہئے۔