اسلام آباد ( وقائع نگار +آئی این پی) سینٹ سے کراچی میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں کے قتل کے خلاف متحدہ اپوزیشن اور بعض حکومتی ارکان نے واک آئوٹ کیا، عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کراچی اردو بولنے والوں کا شہر ہے مگر 50 لاکھ پختون بھی آباد ہیں، اے این پی پر غیر اعلانیہ پابندی لگائی گئی ہے، فاٹا میں پختونوں کے خلاف آپریشن اور کراچی میں غیر اعلانیہ پابندی لگی ہوئی ہے، دوسری جماعتیں 8/10 لاکھ افراد کا جلسہ کرسکتی ہیں، اے این پی جھنڈے بھی نہیں لگا سکتی، ہم دفتر نہیں کھول سکتے، بھتے کی پرچیاں ملتی ہیں، ہمیں اس شہر میں رہنے کا حق نہیں، ہمیں بلوچیوں کی طرح پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے مجبور نہ کیا جائے۔ انہوں نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا جس پر پیپلزپارٹی، جے یو آئی (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں اور حکمران جماعت کے بعض ارکان نے بھی حصہ لیا۔ سینٹ میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر رضا ربانی نے وزیر ہائوسنگ کی عدم موجودگی پر نقطہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ سیاسی بحران میں پارلیمنٹ نے حکومت کا بھرپور ساتھ دیا، مگر لگتا ہے حکومت نے مشکل ترین حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، وزراء آج بھی سینٹ کے اجلاس کی بجائے وزیراعظم ہائوس میں ہونیوالے اجلاس کو اہمیت دیتے ہیں۔ حکومت کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ چیئرمین سینٹ نے وزیر ہائوسنگ کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا متعلقہ وزیر کی عدم موجودگی افسوسناک ہے، انہوں نے وزارت ہائوسنگ سے متعلقہ سوالات موخر کردیئے۔ سینٹ میں چار ماہ 19دن بعد صدر پاکستان کے خطاب کی مصدقہ نقول پیش کی گئیں۔ اظہار تشکر کی تحریک قائد ایوان نے ایوان میں پیش کی جس پر قائد حزب اختلاف نے کہا مصدقہ نقل کا مطالعہ کرنے کیلئے دو دن کا وقت درکار ہے جس پر چیئرمین سینٹ نے صدارتی خطاب پر بحث جمعہ کو شروع کرانے کا فیصلہ کیا۔ وقفہ سوالات کے دوران ایوان بالا کو حکومت کی جانب سے بتایاگیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی روشنی میں پاکستانی دریائوں پر بیراج اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تعمیر کر رہا ہے،ابھی تک بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی، پاکستان میں بجلی کی پیداواری استعداد 21ہزار میگاواٹ، ٹرانسمیشن نظام 15ہزار میگاواٹ سے زائد لوڈ برداشت نہیں کر سکتا جس کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ آئی پی پیز کوادا کئے گئے 341ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کا آڈٹ مکمل ہو چکا ہے جبکہچیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے سوال کا تحریری جواب جمع نہ کرانے پر وزیر مملکت عابد شیر علی کی سرزنش کی۔ وقفہ سوالات کے دوران وزیر مملکت برائے پٹرولیم جام کمال خان نے کہا ایران کے ساتھ گندم کے بدلے گیس خریدنے کیلئے پہلے گیس پائپ لائن بنانا ضروری ہے جبکہ ایران پر پابندیوں کی وجہ سے اس میں کافی پیچیدگیاں ہیں کیونکہ اس میں کوئی بینک شامل نہیں ہو گا، اس لئے اس میں کافی مسائل ہیں۔ سینیٹر سعید غنی کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت عابد شیر علی کا کہنا تھا 2006ء سے اب تک کے ای ایس سی کو سبسڈی کی مد میں 311ارب 84کروڑ روپے ادا کئے گئے جبکہ کے ای ایس سی کے ذمہ حکومت کے 32ارب روپے واجب الادا ہیں ان سے ابھی 17ارب روپے مانگے ہیں۔ہم کے ای ایس سی کی نجکاری معاہدے کے خلاف ہیں، سینیٹر سید مظفر حسین کے سوال پر کہا حکومت نے زرعی ٹیوب ویلوں کو 33.9ارب روپے سبسڈی ادا کی ہے اس سے حکومت کو 40سے 45ارب روپے خسارہ پڑتا ہے، بلوچستان میں زرعی ٹیوب ویلوں کے اور صوبائی حکومت سے 80 ارب روپے لینے ہیں۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کا مزید کہنا تھا دریائے چناب اور راوی کے پانی اور بہائو کے حوالے سے بھارت سے ہمیں کوئی شکایت نہیں اور نہ وہ ہمارا پانی روک رہا ہے۔ دریائے راوی پر دو بیراج (بلوگی، سدھنائی) موجود ہیں جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت پاکستانی دریائوں پر بیراج تو بنا سکتا ہے لیکن سٹوریج نہیں کر سکتا، ماضی میں دریائے راوی پر رنجیت ساگر ڈیم بنایا گیا۔ سینیٹر کرنل(ر) طاہر حسین مشہدی کے سوال پر انہوں نے کہا رینٹل پاور پلانٹس کا مقدمہ عدالت میں ہے حکومت نے ان کمپنیوں کو کوئی رقم ادا نہیں کی۔ وزیر مملکت برائے پٹرولیم جام کمال خان نے ان کے ایک اور سوال کے جواب میں کہا ساری معدنیات وفاقی وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے پاس نہیں۔ ماضی میں قدرتی وسائل میں صوبوں کو زیادہ مراعات دی گئیں جو اچھا اقدام تھا۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا سیندک سے بلوچستان کو صرف دو فیصد مل رہا ہے آیا چینی کمپنی سے معاہدے پر نظرثانی ہو سکتی ہے۔ وزیر مملکت پٹرولیم کا اس حوالے سے کہنا تھا طے شدہ فارمولے کے تحت حکومت بلوچستان اور وفاقی حکومت کو رائلٹی، رینٹ اور دیگر چیزیں ملتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینٹر سعد حسن کے سوال کے جواب میں عابد شیر علی نے کہا 2005ء میں حکومت نے 20چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا تھا جن میں 4مکمل ہو چکے ہیں جبکہ مزید 4ڈیم دسمبر 2014ء تک مکمل ہو جائیں گے اس کے علاوہ 12چھوٹے ڈیموں کی فزیبلٹی رپورٹ تیاری کے مراحل میں ہے۔ مذکورہ منصوبے کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ میں 50کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے جن میں 10کروڑ روپے جاری کئے جا چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی سینیٹر بیگم نزہت صادق کے سوال پر وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کا کہنا تھا حکومت بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے سولر، ونڈ، پن بجلی اور تھرکول کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے، 4200میگا واٹ کے داسو ہائیڈل پاور منصوبے پر آئندہ دسمبر جنوری میں کام شروع ہو جائے گا جبکہ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے پورٹ قاسم، گڈانی، جامشورو میں شروع کئے جائیں گے۔