ریٹائرمنٹ کے حوالے سے میرے کالم کے لئے بہت دوستوں اور قارئین نے رابطہ کیا۔ میرے عزیز مسعود عزیز خان نے بتایا کہ سیاستدانوں کے لئے تو ریٹائرمنٹ کی عمر ہی کوئی نہیں ہے۔ ستر پچھتر سال کے اور اس سے بوڑھے سیاستدانوں کی فہرست بنائی جائے تو خاصی تعداد نکلے گی۔ جمہوریت اور آج کل کی جمہوریت صرف تعداد کا نام ہے استعداد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کسی وزیر شذیر وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم بلکہ صدر مملکت کے لئے کوئی معیار نہیں ہے۔ اس ’’ملازمت‘‘ کے لئے کوئی شرائط نہیں ہیں جبکہ ان کے دفاتر کے چپڑاسی کے لئے بھی کچھ نہ کچھ شرائط اور معیار ضرور ہے۔ صدر ممنون بلکہ ممنون صدر کی عمر کا کچھ پتہ نہیں ہے مگر پچھتر سال سے تو بہرحال زیادہ ہوں گے۔
حکومت چلانے کے لئے اہلیت قابلیت کی شرط نہیں بھی ہے تو کم از کم عمر کی حد تو ہونا چاہئے۔ دنیا بھر کی میڈیکل معلومات کے مطابق ساٹھ پینسٹھ سال کے بعد اتنی توانائی نہیں رہتی۔ بندہ ویسے ہی محتاج ہو جاتا ہے مگر 80 سال کے بوڑھے بھی ہر طرح کی وزارت اور حکومت کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ ان کو سنبھالنے کے لئے بھی دو چار ملازم ضرور رکھے جاتے ہیں۔ دوسرے سب شعبوں میں عمر کا خیال رکھا جاتا ہے یہاں کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔
صدر ممنون کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ 80 سال کے نزدیک ہوں گے۔ انہیں کچھ یاد بھی نہیں رہتا کہ صبح میں نے کیا کہا تھا۔ میں انہیں ان کی محتاجی اور بزرگی کے احترام میں قائم مقام علی شاہ کہتا ہوں۔
نجانے ’’صدر‘‘ زرداری کو ان میں کیا نظر آیا کہ انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ میرا خیال ہے کہ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے اور سب کچھ مان لیتے ہیں۔ وہ ایک دفعہ بہت پہلے بھی وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ تو یہ ان کی تیسری باری ہے۔ تیسری باری کا اہتمام بہت باقاعدگی سے ہونے لگا ہے۔ کیا ساری سندھ اسمبلی میں کوئی ایک بھی دوسرا نہیں ہے جو وزارت اعلیٰ کے قابل ہو۔ کسی دن خاص طور پر ’’صدر‘‘ زرداری سے پوچھنا پڑے گا کہ آخر چکر کیا ہے۔ چکر چلانے کی عمر بھی کب کی قائم علی شاہ کی گزر چکی ہے۔
پچھلے دنوں الیکٹرانک میڈیا نے قائم علی شاہ کے یہ الفاظ سنائے جو انہوں نے کچی شراب پی کے مرنے والوں کی تعزیت اور موت کے دروازے پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے لوگوں کی عیادت کے بعد کہے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ بیچارے بے قصور مارے گئے۔ وہ شہید ہیں۔ اصل قصور تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کچی شراب بنائی ہے۔ منور حسن نے امریکہ کے ہاتھوں مرنے والے دہشت گردوں کو شہید کہہ دیا تھا۔ بہت شور میڈیا والوں نے مچایا تھا۔ منور صاحب کی یہ بات بالکل نامناسب تھی مگر اب قائم علی شاہ کے ارشاد عالیہ بلکہ فتوے کے بعد کسی طرف سے کوئی آواز نہیں اٹھی۔ ایک طرح سے تو قائم علی شاہ نے ٹھیک کہا کہ یہاں تو سب شراب پیتے ہیں۔ کچی شراب پینے والے مر گئے بیچارے غریب تھے۔ ’’پکی‘‘ شراب پینے والے امیر کبیر وزیر شذیر ممبران اسمبلی اکثر سیاستدان اور افسران ہوتے ہیں۔ کچی شراب یعنی دیسی شراب پینے والوں کو برا بھلا کہا جائے تو وی آئی پیز کو بھی کچھ تو کہنا پڑے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ شراب و کباب کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہے۔ قائم علی شاہ یہ تو بتائیں کہ کچی شراب بنانے والوں کو کچھ کہا گیا۔ پولیس والوں کی مہربانی کے بغیر یہ کام بلکہ کوئی برا کام نہیں ہو سکتا۔ یہ شراب کیسے بنی کہاں بنی۔ سب پولیس والوں کو پتہ ہوتا ہے۔ شراب سپلائی ہوئی۔ کسی جگہ کوئی چیک کرنے والا موجود نہ تھا۔ اب بھی شراب بن رہی ہو گی اور پینے والے پیتے بھی ہوں گے۔ شراب کچی نہ ہو گی تو زیادہ سے زیادہ ’’کچی پکی‘‘ ہو گی۔ غریبوں کے لئے عیاشی میں بھی بدمعاشی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔
قائم علی شاہ بوڑھے ہیں مگر عشرت العباد تو ماشاء اللہ جوان ہیں بلکہ جوان رعنا ہیں۔ وہ کب ریٹائر ہوں گے؟ میرا خیال ہے کہ وہ ساری زندگی ریٹائر نہیں ہوں گے اللہ انہیں بڑی لمبی زندگی عطا کرے۔ ان میں کچھ تو ہے کہ وہ صدر مشرف کے زمانے میں گورنر سندھ ہوئے پھر ’’صدر‘‘ زرداری کا زمانہ آیا۔ اب صدر ممنون کا زمانہ ہے جو اصل میں وزیراعظم نواز شریف کا زمانہ ہے۔ اس کے بعد عمران خان کا زمانہ آئے گا اور وہ بھی ڈاکٹر عشرت العباد کو چھیڑنے کی جرات نہیں کر سکیں گے۔ اگر بلاول کا زمانہ آ گیا تو پھر عشرت العباد کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پانچویں بار حکومت سے الگ ہو رہی ہے سارے وزیر مستعفی ہو رہے ہیں۔ وہ استعفیٰ عشرت العباد ہی منظور کریں گے۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر عشرت العباد کو ایم کیو ایم کی کوئی پالیسی بھی متاثر نہیں کر سکتی۔ الطاف حسین کے خلاف باتوں کا رنج دوسرے لوگوں کو ہے۔ عشرت العباد کو بھی ہو گا مگر وہ گورنر رہیں گے۔ الطاف حسین کی مرضی بھی یہی ہو گی۔
قائم علی شاہ کے تقریباً ہم عمر سیاستدانوں کے حوالے سے مجھے سردار ذوالفقار کھوسہ، غلام احمد بلور، آفتاب شیر پائو اور محمود اچکزئی وغیرہ کے علاوہ اور کئی سیاستدان یاد آئے۔ صدر مشرف کے وزیر داخلہ شیر پائو کو نواز شریف وزیر شذیر بنانے والے ہیں۔ اس دوران مجھے وہ پنشنر یاد آ رہے ہیں جو ہر ماہ چند سو روپوں کے لئے ذلیل ہوتے ہیں۔ کئی بوڑھیاں بے ہوش بھی ہو جاتی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کئی برسوں تک پنشن میں ایک روپے کا اضافہ نہیں کیا گیا کرپٹ سیاستدانوں کو پنشن کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
آخر میں مجھے آئی جی موٹر وے ذوالفقار چیمہ کی بات کرنا ہے۔ وہ کمال کے پولیس افسر ہیں۔ دیانت دلیری اور دانشوری میں محکمہ پولیس میں ان کی دوسری مثال نہیں ہے۔ آئی جی سندھ کے لئے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں نے رکاوٹ ڈالی تو میں نے کہا کہ انہیں آئی جی پنجاب لگا دیا جائے تو پولیس کو ایک نیا زمانہ مل جائے گا۔ وہ دو تین مہینوں میں ریٹائر ہو رہے ہیں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ان سے کوئی کام لے لیا جائے وہ اپنی بے پناہ شخصیت کے زور پر کسی بھی کام کو کارنامہ بنا سکتے ہیں۔ اس پولیس افسر کو مرشد و محبوب مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی بھی پسند کرتے تھے۔
اعتزاز احسن نے بلاول کو مشورہ دیا کہ پچاس سال سے زیادہ کے لوگوں کو پچھلی صفوں میں بٹھایا جائے۔ یہ ایک مستحسن مشورہ ہے۔ برادرم نذیر ناجی نے کہا ہے کہ یہ اشارہ ’’صدر‘‘ زرداری کی طرف بھی ہے۔ بلاول اپنے والد کی سیاست سے آگے نکل جائے یا پیچھے رہ جائے تو کامیابی کا امکان ہے؟
پچھتر سال کے بوڑھے سیاستدان اور ریٹائرمنٹ
Oct 22, 2014