زرداری حکومت نہیں چلی، نواز حکومت کیسے چلے گی

 یہ کوئی انوکھا نکتہ نہیں ،سامنے کی حقیقت ہے۔
میثاق جمہوریت اور این آر او کے تحت طے تھا کہ محترمہ بے نظیر الیکشن جیت کر وزیر اعظم بنیں گی، لیکن جیسے ہی وہ جلاوطنی ختم کر کے کراچی اتریں تو ان پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا،اسے سانحہ کارساز کہتے ہیں جس میں دو سو کے قریب لوگ شہید ہوئے اور خود محترمہ بال بال بچیں۔مگر انہوں نے پنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ کیا تو انہیں وہیں شہید کر دیا گیا ، جہاںملک کے پہلے وزیر اعظم خاں لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ اور جہاں قریب ہی ایک جیل میں ان کے والد اور ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔
بہر حال الیکشن ہوئے اور پی پی پی کو اقتدار مل گیا۔ محترمہ کے شوہر نے ایک وصیت کے مطابق پارٹی کی کمان سنبھالی، خود صدر بن گئے اور یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنوا دیا، یہ متفقہ ووٹ تھا۔جنرل مشرف کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ نئے آرمی چیف جنرل کیانی نے قوم سے عہد کیا کہ آئندہ سے فوج کا سیاست اور حکومت سے کوئی سرو کار نہ ہو گا، اور یہی ہوا، جنرل کیانی کو عہدے میں توسیع بھی ملی لیکن انہوں نے اقتدار پر شب خوں نہیںمارا لیکن   اس بارحکومت کا دھڑن تختہ کرنے والی کوئی ا ور قوتیں سرگرم عمل تھیں، ان میں عدلیہ سر فہرست تھی ا ور میڈیا اس کا ہم نوا تھا۔امریکہ نے بھی جی بھرکے حکومت کو رگڑا دیا۔دہشت گرد بھی حکومت کے خلاف صف آرا ہو گئے۔بھارت پوری طرح ان کی پشت پر تھا۔
مگر یہ کہانی اتنی مختصر اور سادہ نہیں۔
پانچ سال تک عدلیہ نے زرداری حکومت کو تگنی کا ناچ نچوایا۔ کسی عہدے پر حکومت کو تقرری نہیں کرنے دی اور اگر کوئی ہو بھی گئی تو عدلیہ اس کو منسوخ کرتی رہی۔ حکومت کے ہاتھ پائوںمیں زنجیریں ڈال دی گئی، روز سو موٹو نوٹس، دن کو نوٹس ، رات کو نوٹس، آدھی رات کو نوٹس ،صبح سویرے نوٹس، پچھلے پہر نوٹس، حکومت پر جب بھی بجلی گری ، جمعہ کے مبارک روز گری، بعض فیصلے رات کے آخری پہر بھی ہوئے۔ ایک ٹی وی پر ٹکر چلتے اور عدلیہ کے فیصلے آ جاتے،موجودہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا جس نے یہ ظاہر کیا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، پچھلی پارلیمنٹ نے بھی اپنے آپ کو سپریم کہنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ عدلیہ نے ایک فیصلہ کیا اور پارلیمنٹ کو حکم دیا کہ وہ اس کے مطابق آئین میں ترمیم کرے ورنہ از خود آئین میں ترمیم تصور کی جائے گی اور پارلیمنٹ کو یہ حکم ماننا پڑا۔وزیر اعظم گیلانی کو روز حکم ملتا کہ وہ صدر کے مقدمے کھولنے کے لئے سوئس حکام کو خط لکھیں،وزیر اعظم آئین کے مطابق دہائی دیتے رہ گئے کہ وہ صدر کے خلاف اقدام نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ خلاف آئین ہے، مگر اس وزیر اعظم کو فارغ کر دیا گیا۔یہ وزیر اعظم اور اس کے بعد آنے والا وزیر اعظم آج بھی سینکڑوں مقدمے بھگت رہے ہیں ۔ عدلیہ کے ہاتھوں گھر جانے والے وزیر اعظم کو اپنے ایک بیٹے کے اغوا کا دکھ بھی جھیلنا پڑا۔آج بھی اس نوجوان لخت جگر کا کچھ اتا پتہ نہیں۔
میڈیا کی سینہ زوری کے سامنے پتہ نہیں حکومت کیسے ثابت قدم رہی، پہلے تو میڈیا نے بیک زبان کہا کہ کہ وصیت کہاں سے نکل آئی، کوئی کہتا اس پر محترمہ کے دستخط جعلی ہیں۔یہ ایک گندے اور گھنائونے کھیل کی ابتدا تھی۔ پھر ہر تین ماہ بعد حکومت ٹوٹنے کی پیش گوئیاں کی جانے لگیں ، تین ماہ گزر جاتے، حکومت اپنی جگہ پر قائم رہتی، چند ہفتوں تک میڈیا اپنی خفت مٹانے میں مصروف رہتا، پھر انگڑائی لے کر اکھاڑے میں اترا ٓتا، یہ مناظرجاپانی کشتیوںمیں دیکھنے کوملتے ہیں۔کیری لوگر بل، ریمنڈ ڈیوس،سانحہ ایبٹ آباد،سلالہ پر امریکی حملہ، کیری لوگر بل اور میمو گیٹ،  یہ ہیں وہ بڑے بڑے اشوز جن پر میڈیا نے حکومت کو رگڑا دیا بلکہ ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا۔
پتہ نہیں یہ میڈیا کس منہ سے اپنے ا ٓپ کو جمہوریت کا چیمپین قرار دیتا ہے جس نے دو سیاسی شہیدوں کی وارث پارٹی کو ملنے والے عوای منیڈیٹ کا ایک لمحے کے لئے بھی احترام نہیں کیا۔
دہشت گرد ووہ دوسری قوت ہیں جس نے زرداری کی منتخب حکومت کو تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہیںچھوڑی، کوئی سوات سے ابھر کر شریعت نافذ کرنے لگا، کسی نے قبائلی علاقوں میں علم بغاوت بلند کر دیا، کوئی سرحد پار افغانستان سے خود کش جیکٹوں سے لیس ہو کر قیامت برپا کرنے لگا، بھارت ان کی پشت پر تھا، وزیر اعظم گیلانی نے بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کو اس کے دہشت گرد ادارے را کی مداخلت کے ثبوت مصر کے شہر شرم الشیخ میں پیش کئے۔ مگر بھارت نے ممبئی حملوں کا ڈرامہ رچایا اور حکومت ہی کو نہیں، پورے پاکستان کو ان دی لائن آف فائر رکھ لیا۔
دہشت گردوں نے پانچ سال تک ملک کے کونے کونے میں خون کی ندیاں بہائیں۔مسجدوں، مزاروں، بازاروں ، حجروں، دفتروں، گرجا گھروں،چھائونیوں میں بم پھٹتے رہے۔حکو مت کیا، ریاست کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی تھی، ہاں  چیف منسٹرشہباز شریف نے دہشت گردوںکو حکم دیا کہ وہ پنجاب کو معاف رکھیں اور ان کی بات سنی گئی، خیبر پی کے، سندھ اور بلوچستان میں لاشیں گرتی رہیں ، پس ماندگان نوحہ خوانی کرتے رہے۔
امریکہ نے بھی زرداری حکومت کا بھرم قائم نہیں رہنے دیا۔ڈرون حملوں سے حکومت کو خفت کا شکار کیا، ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میںدن دیہاڑے قتل و غارت کی مگر امریکہ اسے جیل سے لے بھاگا، ایبٹ آباد میں کوئی ا سامہ بن لادن تھا یا نہیںمگر امریکہ نے خوب ڈرامہ رچایا اور عوام کی نظروںمیں زرداری حکومت کی عزت خاک میں ملا دی۔رہی سہی کسر میمو گیٹ نے پوری کر دی، اور اس پر وہ قیامت برپا ہوئی کہ زرداری کو چند روز کے لئے ملک سے بھاگنا پڑا۔
اگرچہ نواز شریف نے دکھاوے کے لئے فرینڈلی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا مگر اصل اپوزیشن لیڈر ان کے چھوٹے میاں شہباز شریف ثابت ہوئے، جنہوں نے اعلان کیا کہ و ہ زرداری کو گھسیٹ کر ایوان صدر سے نکالیں گے اور لاہور کے بھاٹی چوک میں پھانسی پر لٹکائیں گے، انہوں نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے لئے مینا رپاکستان پر ایک ٹینٹ آفس بنا لیا جہاںموم بتی کی روشنی ا ور پسینے سے تر بتر چیف منسٹر کو میڈیا پر دکھایا جاتا تھا۔
یہ تھا حال زرداری حکومت کا ، نواز شریف توپھر بھی بھاگوں والا ہے کہ اس کے ساتھ ملک کی گیارہ پارلیمانی پارٹیا ںکھڑی ہیں اور ابھی صرف دو پارٹیاں ہی اسے چیلنج کر رہی ہیں، ایک تحریک انصاف اور دوسری پاکستان عوامی تحریک۔ہرچند نواز شریف کا کہناہے کہ پانچ سال کے لئے منتخب ہوا ہوں،ا س سے پہلے نہیںجائوں گا ،بھلے وہ کہیںنہ جائیں مگر ان کی حکومت کو کون چلنے دے گا۔ کیا کسی نے زرداری حکومت کو چلنے دیا تھا۔
میرا سوال بڑا سادہ سا ہے۔مگر لاجواب کر دینے والا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن