قارئین کرام ! بھارت میں سنگھ پریوار کے اشتراک سے قائم ہونے والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نریندر مودی سرکارنے بھارت میں گائے کا گوشت کھانے پر پابندی کی آڑ میں بھارت کے طول و ارض میں مسلمانوں کیخلاف تشدد پسند تحریک کو ریاستی سرپرستی میں آگے بڑھایا ہے اور اِس کا دائرہ کار مقبوضہ کشمیر تک پھیلادیا ہے جسکے نتیجے میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں مسلمان ممبران اسمبلی کو اِس قانون کی مخالفت کرنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ سنگھ پریوار کی انتہا پسند ہندو تنظیموں کو ہندوازم کے شدت پسند ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے بھارت ماتا کے تصور کی آڑ میں مسلمانوں کیخلاف تشدد پسند اقدامات کی کھلی چُھٹی دے دی گئی ہے ۔ یاد رہے کہ بھارت میں حالیہ عام انتخابات سے قبل راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (RSS) کے چیف ڈاکٹر موہن بھگوت کی قیادت میںسنگھ پریوار کی تمام جماعتوں نے متفقہ اشتراک عمل کے ذریعے اِس اَمر کی منظوری دی تھی کہ انتخابات کے بعد نریندر مودی سرکار کے وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کی صورت میں بھارت ماتا کو سیکولر ریاست کے بجائے حقیقی معنوں میں ہندو ریاست میں تبدیل کر دیا جائیگا ۔ چنانچہ مودی سرکار کے قیام کے بعد بھارت میں مسلمانوں کیخلاف تعصب کی آگ کو اسقدر پھیلایا گیا ہے کہ شیو سینا اور آر ایس ایس کے دہشت پسند گروپوں نے پولیس کی خاموش حمایت سے مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے ناکردہ جرم میں اُنکے گھروں کے دروازوں پر تشدد کرکے موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے جس کی تصدیق لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے بھی ہوئی ہے شیو سینا، بجرنگ دل، ویشوا ہندو پریشد اور آر ایس ایس کے متعصب انتہا پسند ہندو، شدت پسندی کی اِس آگ کو بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے طول و ارض میں پھیلانے میں پیش پیش ہیں ۔ سہارن پور سے تعلق رکھنے والے ایک بھارتی مسلمان کے علاوہ ایک کشمیری ٹرک ڈرائیور کو محض اِس لئے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا کہ وہ گائے ، بیل اور دیگر مویشی دیگر اضلاح میں لے جا رہے تھے۔بھارتی مسلمان جو اپنی مذہبی رسومات کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں کو کہا جا رہا ہے کہ وہ بھارت چھوڑ کر پاکستان چلے جائیں ۔ شیو سینا کے اہم لیڈروں نے مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نام نہاد سرحد پار دہشتگردی کو روکنے کیلئے پاکستان میں دہشتگردوں کے مراکز پر حملہ کرے۔ اِسی طرح شیو سینا کے انتہا پسند ہندوئوں نے پاکستان کیساتھ کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگانے کیلئے بھارتی کرکٹ تنظیم کے ممبئی ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولا ہے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان کیخلاف نعرے بازی کی ہے جنہیں بھارتی کرکٹ بورڈ کے صدر نے آئندہ کرکٹ سیریز کے حوالے سے گفتگو کیلئے بھارت آنے کی دعوت دی تھی۔ پاکستانی انٹرنیشنل ایمپائر علیم ڈار سے جو بین اقوامی کرکٹ مقابلوں میں ایمپائرنگ کے فرائض کیلئے بھارت میں تھے، بھارت چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا چنانچہ وہ آئی سی سی کے حکم پر واپس دبئی چلے گئے ہیں ۔
بھارتی مسلمان فکر مند ہیں کہ کیا ہندوازم جدید تہذیب کے موجودہ جمہوری زمانے میں بھی ہزاروں برس قبل ماضی کے ظالمانہ دور میں داخل ہونا چاہتا ہے اور کیا سنگھ پریوار کے اشتراک سے ہندوستان میں قائم ہونے والی نریندر مودی حکومت ہندوستان میں دیگر مذاہب بالخصوص اسلام کو ہندوازم میں جذب کرنے کی ناکام پالیسی کو پھر سے زندہ کر نا چاہتی ہے ؟ یہ درست ہے کہ ہزاروں برس قبل آریا ہندو سماج کے فاتحین افغانستان کے راستے فتح کے جھنڈے گاڑتے ہوئے ہندوستانی دراوڑ قوم کوشکست دیکر ہندوستان پر قابض ہوئے تھے اور پھر برّصغیر ہندوستان کی سرزمین کو بھارت ماتا قرار دے کر اپنی حاکمیت کو اِس قدر مستحکم کر لیا کہ بعد میں ، چین، وسط ایشیا اور یورپ سے ہندوستان میں داخل ہونے والی فاتح قومیں بھی وقت گزرنے کیساتھ ہندوسماج کی شدت پسندی کا شکار ہو کر کے ہندو ازم میں جذب ہو کر اپنی علیحدہ شناخت کھوتی چلی گئیں حتیٰ کہ ہندو ازم کے مقابلے میں مقامی بدھ مت تہذیب جسکی گونج چندر گپت کے پوتے اشوک بادشاہ کے بدھ مذہب اختیار کرنے کے بعد صدیوں تک کابل سے ممبئی و کلکتہ تک محسوس کی جاتی رہی، بالآخر ہندوسماج کی شدت پسندی کے ہاتھوں ہندوستان سے اِس طرح ختم ہوا کہ بدھ ازم کی یادگاریں تو اب بھی برصغیر جنوبی ایشیا کے طول و ارض میں موجود ہیں لیکن بدھ ازم کے ماننے والوں کو محض انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔
مورخ لکھتے ہیں کہ بدھ ازم کو ہندوستان کی سرزمین سے مٹانے کیلئے بدھ راہبوں کو ہندو جنونی شدت پسندوں کے اجتماعات میں اُبلتے ہوئے تیل کے کڑاہوں میں ڈال کر مارنے سے گریز نہیں کیا گیا۔ بہرحال ہندوازم کا یہ طلسم اُس وقت ٹوٹ گیا جب صحرائے عرب اور وسط ایشیا سے آنیوالے مسلمان فاتحین نے ہندوستان پر ایک ہزار برس تک حکمرانی کی۔ آخری مغلیہ دور میں جب مسلمانوں پر زوال کی کیفیت طاری ہوئی تب بھی ہندوئوں نے نہیں بلکہ انگریزں نے مسلمانوں سے اقتدار چھینا ۔ چنانچہ ہندو دانشور اِس اَمر سے کافی شاکی رہے کہ ہندوستان میں ہندوئوں کی بڑی اکثریت کے باوجود ہندوازم بھارت میں اسلامی تہذیب کو ماضی کی دیگر اقوام کی طرح ہندو سماج میں جذب کرنے میں کیوں ناکام رہاحتیٰ کہ ہزاروں میل دور سے سمندری قوت کے بل بوتے پر ہندوستان آنے والی انگریز قوم ہندوستان پر قابض ہو گئی۔ چنانچہ ہندو ازم کیلئے یہ اَمر بھی سماجی چبھن کی شکل اختیار کر گیا کہ ہندوستان میں انگریز قوم زوال پزیر ہوئی تو بھی ہندو اکثریت اکھنڈ بھارت بنانے میں ناکام رہی جبکہ قائداعظم اپنی جدوجہد کے تسلسل سے پاکستان بنانے میں کامیاب ہوئے اور یہی وہ معاشرتی چبھن ہے جو قیام پاکستان کے بعد بھی ہندوازم کو مسلمانوں سے انتقام لینے پر اُکسا تی رہی ہے ۔سقوط ڈھاکہ کے موقع پر بھارتی و زیراعظم مسز اندرا گاندہی کا یہ کہنا کہ بنگلہ دیش بنا کر اُنہوں نے ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ، اِسی ہندو فکر کی نمائندگی کرتی ہے ۔ چنانچہ خطے میں ہندوازم کے ناپاک عزائم کے سبب ہی پاکستان بھارتی ایٹمی بالادستی کو ختم کرنے کیلئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی کوششوں سے ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہوا ۔ اندریں حالات، مودی حکومت کی تشکیل کے بعد ہندوازم میں آنیوالے شدت پسندی کے نئے رجحانات ماضی کی طرح اسلام کو اپنے اندر جذب کرنے میں تو کبھی کامیاب نہیں ہونگے البتہ ہندو دہشت گرد تنظیموں کی اسلام اور عیسائیت کو ہندو سماج میں جذب کرنے کی کوششیں خود بھارت میں اندرونی خلفشار پیدا کرنے اور بھارت یونین کے ٹوٹنے کا سبب ضروت بن سکتی ہے۔ بہرحال پاکستان کو نریندر مودی حکومت کے ناپاک عزائم سے باخبر اور تیار رہنے کی ضرورت مسلمہ ہے ۔