ادلے کا بدلہ

کل شام (04-10-2016) کو ایک نجی ٹی وی چینل پر مسلم لیگ (ن) کے سنیٹر نہال ہاشمی عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد پر برس رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ "اس جیسے مسخرے سیاسی پارٹیوں میں آ گئے ہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بد زبانی، بدکلامی اور گستاخیاں کرتے ہیں جو نہایت معیوب ہے اور یہ بد تمیزی بند ہونی چاہئے" وہ خاصے برہم نظر آئے تھے قارئین کو اچھی طرح یاد ہے کہ یہ وہی شیخ رشید احمد فرزند راولپنڈی ہیں جو تھوڑا عرصہ پہلے تک ہمارے وزیراعظم "جناب میاں صاحب" کے دست راست، رازدار اور کشمیری نژاد ہونے کی وجہ سے بہت قریب تھے اور سر بازار مخالف سیاستدانوں کی پگڑی اچھالنے کے فن پر عبور حاصل ہونے کی وجہ سے ان کے پسندیدہ ساتھی تھے اور وہ ان حرکات کی وجہ سے ہی ان کو بہت پسند تھے اور پسندیدگی کی وجہ یہی خصوصیت تھی جس سے وہ بہت محظوظ اور لطف اندوز ہوتے تھے اب یہ جگہ پرویز رشید اور انکے گروپ کے باقی ساتھیوں نے لے لی ہے مخالفین جو شیخ رشید احمد کے اس فن کی زد میں آتے تھے ان میں پیپلز پارٹی اور خاص کر محترمہ بینظیر بھٹو تھیں۔ شیخ رشید احمد ہمیشہ محترمہ کو ایسے گھٹیا غلیظ نازیبا اور گندے القابات سے نوازتے تھے جن کو یہاں دہرایا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ وہ اخلاق سے ہر لحاظ سے گرے ہوئے ہوتے تھے۔ 1989ء میں ایک ضمنی الیکشن کے سلسلے میں گوجرانوالہ میں "میاں صاحب" کی موجودگی میں ایک اجتماع ہوا جس کو پہلے ایک MPA نے خطاب کیا جن کا ذکر کرنے پر بھی زبان کے پلید ہونے کا خطرہ ہے اس نے اس وقت کی وزیراعظم کیخلاف اتنی دشنام طرازی کی کہ الامان والحفیظ۔ اسکے بعد شیخ رشید احمد نے بار بار سٹیج سے دونوں ہاتھ بلند کر کے اپنے جوشیلے انداز تخاطب میں یہ نعرہ لگایا "میاں جی" سٹیج کے سامنے بٹھائے ہوئے خاص بندے فقرہ مکمل کرنے کیلئے کہتے "تن کے رکھو" پورا جملہ یہ ہوا کہ (میاں جی۔ تن کے رکھو) یاد رہے کہ اب بھی مسلم لیگ (ن) کا یہی عمومی نعرہ ہے پہلے پانچ سات منٹ سٹیج سے شیخ رشید احمد یہی نعرہ لگاتے رہے اسکے بعد وقفے وقفے بعد اس کو دہرایا گیا "میاں صاحب" اس اثنا میں کھڑے ہو کر محظوظ ہوتے رہے اسکے بعد باقی لوگوں کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھ گئے اور جلسے کی کارروائی شروع ہو گئی اور ہر مقرر کی تقریر سے پہلے اور اسکے بعد شیخ رشید احمد یہی جملہ بار بار دہراتے رہے اور ہر دفعہ سٹیج پر بیٹھے ہوئے میاں صاحب کی طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے رہے اور "میاں صا حب" زیر لب مسکرا کر خوش ہوتے رہے اس دوران ان سے بار بار گزارش کی گئی کی جناب یہ الفاظ ناپسندیدہ ہیں اور اس سلسلے کو بند کر دینا چاہئے مگر انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا اب وہی شیخ رشید احمد وہی ہتھکنڈے انکے خلاف استعمال کر رہے ہیں بلکہ کسی وقت جوش و جذبے میں زیادتی کر جاتے ہیں جو نامناسب ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ رشید احمد جو اس وقت "میاں صاحب" کو خوش کرنے کیلئے دوسروں کے ساتھ کرتے تھے وہ بھی غلط تھا اور اب جو "میاں صاحب" کیخلاف کرتے ہیں یہ بھی بہت غلط ہے۔ مگر اس کو کیا کہیں گے اسے کہتے ہیں " ادلے کا بدلہ" یا "مکافات عمل"۔ اسکی ایک اور مثال بھی ملاحظہ فرمائیں جب محترمہ وزیراعظم تھی اور ان کی لاہور آمد پر "میاں صاحب بطور وزیراعلیٰ پنجاب انکے استقبال کیلئے ائر پورٹ پر نہیں جاتے تھے حالانکہ یہ اصولاً انکی مجبوری تھی کیونکہ یہ پروٹوکول کا تقاضا تھا جب میاں صاحب نے اس کو معمول ہی بنا لیا تو محترمہ ان کے گھر پہنچ گئیں اور اچھے انداز سے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور تعاون کی درخواست کی مگر میاں صاحب نے اس کو درخور اعتناء نہ سمجھا اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ وزیراعظم بن گئے مگر جلد ہی معاملات بگڑ گئے اور غلام حیدر وائیں کی جگہ میاں منظور احمد وٹو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیئے گئے تو انہوں نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ اگلے پچھلے سارے حساب برابر ہو گئے یہاں تک کہ جب انکے ماڈل ٹائون میں واقع گھر کے جنگلے توڑنے کیلئے آپریشن کیا گیا تو یہ سارے صاحبان گھر کے اندر موجود تھے اور باہر ساری کارروائی مکمل ہوتی رہی اندر موجود ہوتے ہوئے جس کوفت کا سامنا کرنا پڑا وہ تو یہی بیان کر سکتے ہیں۔
سارے سیاستدان ایک دوسرے کو تنبیہ کرتے رہتے ہیں کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے اتنی زیادتی کریں جتنی آپ اپنی دفعہ برداشت کر سکیں لیکن پاکستان کی تاریخ میں دیکھا گیا کہ اس پر کوئی بھی عمل نہیں کرتا اور اقتدار کے نشے میں طاقت کے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے ہر چیز کو پائوں تلے روند ڈالنے کا مزہ لینے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ سب لوگ قدرت کے اٹل قانون کو بھول جاتے ہیں کہ "جیسا کرو گے ویسا بھرو گے" سیانے کہتے ہیں کہ اگلے جہاں کا تو اللہ کو پتہ ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ہر انسان اس دنیا میں ہی اپنا حساب چکا کر جاتا ہے۔ واللہ اعلم و بالصواب۔
ایک فرق ہے کہ میاں صاحب کچھ نہیں کرتے بلکہ سب کچھ دوسروں سے کرواتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ ان کے ایما پر ہوتا ہے۔ عمران خان کی شکل میں بھی ایک صاحب سامنے آ گئے ہیں۔ جو زبان کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتے بلکہ خاصی بے احتیاطی کر جاتے ہیں اور کسی وقت تکلیف دہ باتیں کر جاتے ہیں۔ مگر جناب میاں صاحب کے ساتھی بھی کچھ کم نہیں۔ خاص کر جناب پرویز رشید۔ ان کی تو یہ ڈیوٹی بھی ہے اور ان کا تقاضائے منصبی بھی ہے کہ وہ ہر قیمت پر حکومت کے موقف کی تائید کریں اور اس کا بچائو کریں۔ چاہے ان کو غلیل اور دلیل جیسی بے کار اور غیر متعلقہ اصطلاحات کا استعمال ہی بروئے کار کیوں نہ لانا پڑے۔ وہ اکثر اپنی تقاریر میں دور کی کوڑی لاتے ہی نظر آتے ہیں اور مذاق کا باعث بنتے پائے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کے ساتھ ان کو داد بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ جناب چودھری نثار علی نے فرمایا کہ "عمران خان کیلئے پرویز رشید ہی کافی ہے۔ یادش بخیر محمد علی درانی سابقہ وزیر اطلاعات کے بارے میں اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ یہ محمد علی غلط بیانی ہے۔
"ہماری گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا نظام ہے۔ واللہ غالب علی امرہی۔ اور مکافات عمل کیلئے۔ بلک ایام ندا الھا بن الناس۔ بندے وہی ہوتے ہیں اللہ تعالی دن بدل دیتا ہے۔ ایک دن آصف علی زرداری کو ملنے کے لئے لاہور جیل کی ڈیوڑھی میں محترمہ بینظیر بھٹو اپنے تینوں بچوں کے ساتھ سخت گرمی اور حبس کے دنوں میں زمین پر اینٹیں رکھ کر بیٹھی تھیں اور انتظار کی شدت سے بے حال تھیں۔ اور پھر ایک دن لاہور سے میاں صاحب کو جہاز پر لے جاتے ہوئے فوج والوں نے سیٹ کے ساتھ زنجیروں سے باندھ دیا تھا۔ دونوں سابقہ وزیراعظم پاکستان رہ چکے تھے۔ اللہ نے فرمایا فلن تجدلسنتہ اللہ تبدیلا۔ اے رسول آپ دیکھیں گے کہ آپ کا اللہ اپنے اصولوں کو کبھی نہیں بدلتا۔ اللہ تعالیٰ علم خیبر اور بصیر ہے۔ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ اور بندہ جو کچھ کرتا ہے۔ یہ ریکارڈ ہو رہا ہے۔ اور اس کو اس سے confront کرایا جائے گا۔ لہٰذا اس گھڑی کے آنے سے پہلے ہی اس کا انتظام کر لیا جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن