ہمیں احساس ہے کہ ہم اپنے کالم کی شروعات ایک گھسے پٹے موضوع یعنی شہر کراچی کو درپیش ٹرانسپورٹ کے سنگین مسئلے سے کررہے ہیں۔ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے کراچی کے شہری تقریباً روزانہ صبح و شام نبرد آزماہوتے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کو بسوں اورویگنوں میں لٹک کرسفرکرنا پڑتا ہے اورموٹر کاروں میں دفتر اور کاروبار پرجانے والے بھی بدقسمتی سے ٹریفک کے اژدھام کا یہ مسئلہ دنیا کے تقریباً بڑے شہروں کو درپیش ہے جہاں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جس کا سب سے بڑا سبب اندرون ملک سے حملہ آور ہونے والا عوام کا سیلاب ہے۔ تاہم کراچی اوراتنی ہی آبادی والے دنیاکے دوسرے بڑے شہروں میں فرق یہ ہے کہ وہاں اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ہنگامی نوعیت کے بڑے پیمانے پرجواقدامات کئے گئے ہیں‘ ان سے کراچی کم از کم ابھی تک محروم رہا ہے۔
مثال کے طورپر دنیا میں اتنی بڑی آبادی والا شاید ہی کوئی شہر ایسا ہوگا جہاں کسی نہ کسی شکل میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی سہولت فراہم نہ کی گئی ہو۔ مگر کراچی کیلئے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو جڑسے اکھاڑنے والا ایسا کوئی منصوبہ ابھی تک محض کاغذوں تک محدود ہے۔ عام شہری تقریباً روزانہ صبح شام دفتر جانے اور دفترسے واپس گھر آنے کیلئے اس عذاب سے گزرتے ہیں جو لوگ اپنی کاروں‘ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میںدفتر یا اپنے کسی کاروبارپر جاتے ہیں ان کے مسائل علیحدہ ہیں‘ انہیں تقریباً روزانہ ہی صبح شام ٹریفک جام کاسامناکرنا پڑتا ہے۔ اس ٹریفک جام کی وجہ سے انہیں ذہنی کوفت بھی ہوتی ہے اور کسی حد تک مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتاہے۔
سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا خاصا نقصان ہوتاہے‘ گاڑیوں کے مالکان حادثات سے بھی دوچار ہوتے رہتے ہیں‘ انہیں ہمیشہ گاڑی چوری ہونے کا اندیشہ درپیش رہتاہے۔ پارکنگ کے مسائل علیحدہ ہیں‘ اکثر لوگوں کواپنے دفتر یا کاروبارکی جگہ سے کافی دور پارکنگ ملتی ہے‘ ایسی جگہ جہاں سے اکثرکاریں چوری یا لفٹنگ کا خطرہ رہتاہے۔ شہر میں کاروں اور موٹرسائیکلوں کی دن بہ دن بڑھتی ہوئی تعداد نے ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو اورسنگین بنا دیاہے۔ اگرشہر میں کوئی افیشنٹ ماس ٹرانزٹ سسٹم کام کررہا ہوتا تو یقیناً لوگ اتنی کثیر تعداد میں کاریں اور موٹر سائیکلیں استعمال کرنے پر مجبور نہ ہوتے۔ ایک اور مسئلہ شہرمیں رکشائوں کی بہتات کا ہے جو یقیناً شہر کی ضروریات سے زیادہ ہیں اور اس بھر مار کی وجہ سے قدرتی طور پر ان رکشائوں کے مالکان کی آمدنی بھی کم ہوگئی ہے۔ انگنت رکشائیں جابجامسافروںکے انتظارمیں کھڑی نظر آتی ہیں اورٹریفک کی روانی میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ ٹریفک اتنا بڑھ گیا ہے کہ اسے ہینڈل کرنے والے کانسٹیبل بھی کم پڑ گئے ہیں جو گنے چنے ٹریفک کانسٹیبل ہیں وہ اپنا اصل کام کرنے کے بجائے اکثر دوسری سرگرمیوںمیں مصروف نظر آتے ہیں اور بعض افسوسناک واقعات نے ان کے اس قسم کے رویئے کیلئے جوازفراہم کردیا ہے۔ اگرچہ ٹریفک کا نسٹیبلز کی کارکردگی پرآئے دن نکتہ چینی کی جاتی ہے مگر بہت کم لوگ ان کی زندگیوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں۔ ایک مناسب سی زندگی جتنی کم سے کم رقم میں گزاری جاسکتی ہے ان پولیس والوں کی تنخواہیں اس سے بہت کم ہیں اور اکثر کو اپنی بقاء کیلئے دوسرے ’’ذرائع‘‘ اختیارکرنے پڑتے ہیں۔
چنانچہ صورت حال یہ ہے کہ ٹریفک کانسٹیبلز اتنی کم تعداد میں ہیں کہ تمام ٹریفک سگنلز کو کنٹرول نہیں کرسکتے اور بہت سے ٹریفک سگنلز کو شہریوں کی صوابدیدپر چھوڑ دیا گیا ہے‘ جہاں بظاہر خاصے شریف اور مہذب دکھائی دینے والے موٹر گاڑیوں کے ڈرائیور بڑے دھڑ لے سے سگنل توڑتے اور رونگ سائیڈ سے آتے دکھائی دیتے ہیں‘ ان کوروکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے ا ور اب یہ ٹریفک کی خلاف ورزیاں اتنی کثرت سے کی جارہی ہیں کہ برائیوں میں شمارہی نہیں ہوتیں۔
آخر ٹرانسپورٹ کے اس مسئلے کا حل کیا ہے‘ کیونکہ یہ مسئلہ پک پک کر سرطان کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اسلئے اس کے حل کرنے کے لئے بھی ایک میجر سرجری کی ضرورت ہے جسکی بدقسمتی سے ہمارے ارباب حل وعقد میں نہ صلاحیت ہے اور نہ سکت‘ ویسے بھی ہمارے شہرکابرسر اقتدار طبقہ زیادہ تر ڈیفنس کلفٹن میں رہتاہے‘ لہذا اسے اس عذاب سے نہیں گزرنا پڑتا جن سے ہمارے عام شہری صبح و شام دوچار ہوتے ہیں۔ دنیا میں بعض شہر ایسے بھی ہیں جہاں گاڑیوں کو متبادل سڑکوں پرآنے کی اجازت دی گئی ہے یعنی جفت نمبر کی گاڑیاں ایک دن چلتی ہیں اور طاق نمبر کی گاڑیاں دوسرے دن ہمارے یہاں ظاہرہے۔ عام ڈگر سے بالکل ہٹا ہوا اس قسم کا کوئی قانون نہ بنایا جاسکتاہے اور نہ اس پر عمل کرایا جاسکتاہے‘ بہرحال کچھ اقدامات اس شہرمیں ٹرانسپورٹ کی بھرمار کو کم کرنے کے لئے ضروری ہیں۔
سب سے پہلے تو ماس ٹرانزٹ سسٹم کی سہولت بیانات اور خبروں سے آگے بڑھ کر اس شہر کوفراہم کی جائے۔ اگر سنجیدگی اور ایمانداری سے اس کی ابتداء کی جائے تو اسے آن گرائونڈ ہونے میں مزید تین چار سال درکار ہوںگے۔بسوں اورویگنوں کی مانیٹرنگ کی جائے اور ایسی گاڑیاں جو نہ چل رہی ہوں ان کے لائسنس منسوخ کئے جائیں‘ ایک وی آئی پی ٹرانسپورٹ سروس شروع کی جائے جسے موٹر گاڑیاں چلانے والے استعمال کرسکیں۔
رکشائیں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی جائے‘ خاص طورپر رکشائوں کیلئے خرید لائسنس نہ دئیے جائیں ۔ جہاں کہیں گنجائش ہو ٹرانسپورٹ کے نظام پر دبائو کم کرنے کیلئے بعض ملازمین کوگھرسے آن لائن کام کرنے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے۔ کار ڈرائیوروں کو پابند کیا جائے کہ وہ اکیلے کے بجائے ساتھی مسافروں کے ساتھ سفر کریں اور چالان سے بچنے کے لئے مجبوراً اپنے دفتر کے ساتھیوں کو لفٹ دیں اس کیلئے لفٹ کارڈ یالفٹ پاسز بھی جاری کئے جاسکتے ہیں تاکہ کوئی ناپسندیدہ شخص اس سہولت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔ لیاری ایکسپریس وے اورسرکلر ریلوے جیسے سفید ہاتھیوں کو پوری طرح بحال کیا جائے خصوصاً سرکلر ریلوے کے ٹریفک کوکسی ماس ٹرانزٹ اسکیم کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ ایسی کسی اسکیم کیلئے اس ٹریک پر جو تعمیری سرگرمیاں ہوںگی ان سے شہرکے معمولات کم سے کم متاثر ہوںگے۔
ہوسکتا ہے کہ ہماری بعض تجاویز بہت زیادہ تصوراتی اور ناقابل عمل محسوس ہوں مگر جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ہماراشہرکراچی خاص نوعیت کے منفرد مسائل سے دو چار ہے‘ ان کے حل کے لئے ایسے ہی غیر معمولی اور منفرد اقدامات کی ضرورت ہے۔