"آپریشن فور پلے"

Oct 22, 2017

مطیع اللہ جان....ازخودی

اگر مصور پاکستان کا تصور پاکستان آج کا پاکستان ہوتا تو کیا وہ کوئی ایسا خواب دیکھتے جس کی تعبیر میں صداقت، عدالت اور شجاعت کے اسباق کی بجائے جھوٹی قیادت، بددیانت عدالت اور سیاسی بزدلی شامل ہوتی؟ اس خواب کی تعبیر بتانے والے قائداعظم بھی اگر آج زندہ ہوتے تو کیا وہ اٹک کے قلعے میں نظر بند نہ ہوتے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے عین مطابق یہ دونوں محسنانِ پاکستان ہمارے شر سے آخر کیسے بچ سکتے تھے۔"آزادی کی قیمت" کا اندازہ ان عظیم شخصیات کو بھی بخوبی ہو جاتا اور شاید وہ یہ بھی جان لیتے کہ آزادی محض انگریز اور ہندوو¿ں سے آزادی کا نام نہیں۔ سوچ، تحریر، اظہار اور تحقیق کی آزادی شاید ہماری قسمت میں ہی نہیں تھی۔ پاکستان تو آزاد ہو گیا مگر پاکستانی محکوم۔ ہماری سیاسی قیادت اور قومی ادارے جنھوں نے آئین کے تابع ہونا تھا وہ اپنے سیاسی مفادات کے تابع ہو گئے۔ جھوٹے حلف اٹھائے، جھوٹی قسمیں کھائیں، جھوٹے وعدے کئے محض اقدار اور ملکی وسائل پر مکمل کنٹرول کیلئے۔ آج پھر آئین سے وفاداری کے حلف اٹھانے والے آئین سے وفاداری کا اعادہ کر رہے ہیں اور آئین کی پاسداری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ صداقت کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن ہو، انصاف کی محافظ عدالت ہو یا عسکری قیادت، سب کو نجانے کس بات کی جلدی ہے کہ آٹھ ماہ بعد ہونیوالے عوامی ووٹ کے فیصلے سے پہلے حکومت کو چلتا کرنے کیلئے سازش گہری ہوتی جارہی ہے۔ شاید مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہو گئے تو سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائےگا۔ سیاسی جماعتوں اور خاندانوں میں دراڑیں ڈالنے کی ماہر قوتیں ایک بار پھر ہتھوڑا لے کر اب کی بار رائیونڈ پر چڑھ دوڑی ہیں۔ اسے سیاسی یا خاندانی حکمت عملی کہیں یا حقیقی ٹوٹ پھوٹ، ن لیگ کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی واضح طور پر الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف کیلئے پیغام واضح ہے کہ جو فیصلہ بھی کرنا ہے جلد کریں وگرنہ ماڈل ٹاو¿ن کا واقعہ اور حدیبیہ پیپر ملز کیس میں "انصاف کا ہتھوڑا" بھی منتظر ہے گرنے کو۔ انصاف کے توپ خانے نے پہلے ہی "دشمن" کی فوج کو تہس نہس کر دیا ہے جسکے بعد اپوزیشن کے پیدل دستے پیش قدمی کیلئے صف آرا ہو رہے ہیں۔ اگر شہباز بٹالین نے ہتھیار نہ ڈالے تو حدیبیہ میزائل اور ماڈل ٹاو¿ن فورس ان پر حملہ آور ہوں گی۔ شہباز بٹالین نے محض اتنا کرنا ہے کہ اپنے ساتھ کی نواز رجمنٹ کو غیر مسلح کرکے انہیں محاذ سے واپس بھیجنا ہو گا۔ دوسری طرف حکمران فورس کے عقب میں نقب بھی لگ رہی ہے۔ وزیر خارجہ کے بیانات کی چڑھتی گڈی کی ڈور پر کانچ کی ڈور ڈال کر اسے لوٹ لیا گیا ہے اور اسکے جگہ کینیڈا کے خاندان کی بازیابی کر کے اپنا گڈا چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

وزارت داخلہ کی ناک کے نیچے سے جمہوریت اور حکمران جماعت کے حامی سوشل میڈیا کے بلاگرز کیخلاف مقدمات اور کاروائی شروع ہے جس سے وزیر داخلہ لاعلم تھے۔ وزیر دفاع کو طلب کر کے انکے سامنے ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر انھیں انکی حیثیت یاد دلائی گئی ہے۔ وزیر خزانہ کو ملکی معیشت کا سبق یاد نہ کرنے پر ان کو ان کی اپنی کرسی پر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بھی قومی سلامتی کا کورس کروانے جی ایچ کیو طلب کیا گیا، جس پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے محض کمیٹی سے استعفیٰ دیا ہے مگر سینیٹر صاحب کے لیڈر جناب آصف علی زرداری اپنی اور ڈاکٹر عاصم کی "باعزت" بریت پر "ممنونیت" کا مظاہرہ کرتے ہوئے شریف خاندان کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضاربانی کو بھی جمہوریت کا بخار چڑھے اور اترے کافی دن گذر چکے ہیں، ابھی تک ان کو بھی جمہوریت کے حق میں "دلچسپ اور عجیب" بیان دینے کا نیا آئیڈیا نہیں سوجھ رہا۔ بیوروکریسی اپنی حکومت اور وزراءکا حشر دیکھ کر ویسے ہی سہمی بیٹھی کسی "نامعلوم کالرآئی ڈی" سے آنے والی اگلی فون کال کی منتظر ہے۔عوامی مینڈیٹ کے دعویدار ان دشمنوں پرصفوں کے اندر سے"ضرب مومن " لگانے کی کوشش ہے۔ پارٹی کے اندر سے نئی قیادت کی آوازوں نے بظاہر شریف خاندان کا خون بھی سفید کر دیا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ خون سرخ ہو اور مارچ 2018 کی منزل تک رینگ رینگ کر جانے کی حکمت عملی ہو۔ مگر فلم "مالک" کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر نے اس فلم کو محدود دورانیے میں ختم کر کے چھوڑنا ہے۔اس فلم کا ایک منظر ابھی بھی کھٹکتا ہے جس میں ایک ریٹائرڈ میجر آدھی رات کو جج کے گھر کی دیوار پھلانگ کر اس کے بیڈ روم میں اسے جگا کرکہتا ہے کہ "عوام " اس ملک کے مالک ہیں جو ججوں کو دھمکی نہیں نوٹس دیتے ہیں۔آنے والی یا موجودہ صورتحال اس فلم کے انجام سے کچھ مختلف نہیں لگ رہی۔یاد رہے نواز شریف حکومت نے اس فلم پر پابندی لگائی تھی مگر شایداس کے کردارآج بھی فعال ہیں۔اس صورتحال میں چند میڈیا کے اداروں نے بھی اپنے صحافیوں سے اپنے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس بند کرنے کیلئے کہا ہے (اس میں راقم شامل نہیں)۔ کچھ صحافیوں اور اینکروں نے بھی کافی محتاط انداز اپنانا شروع کر دیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں جب آئین سے وفاداری اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کے جھوٹے حلف اور قسمیں اٹھانے والی قوتیں یہ بیان دیتی ہیں کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور مارشل لاءکی بات بھی نہیں کرنی چاہیے تو ایک چیز واضح ہو جاتی ہے کہ یہ سب "آپریشن فور پلے" ہے۔
(Foreplay)ہے۔ اگر "آپریشن فاو¿ل پلے" (Foul play)نہیں بھی تو۔مگر تجربہ کار لوگ جانتے ہیں کہ آپریشن فورپلے کا منطقی انجام آپریشن فاو¿ل پلے ہی ہوتا ہے۔ فور پلے کا الزام عدالت میں اتنی آسانی سے ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا، اور اگر ایسا مقدمہ کھلی عدالت میں چلا بھی جائے تو ہمارے معاشرے میں اس پر سنجیدہ بحث اور فیصلے کی بجائے مظلوم کی ہزیمت کا باعث ہی بنتا ہے اور بند عدالت میں ایسے مقدمے سے متعلق "خاموشی کی زبان" ہی مناسب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہماری جمہوری حکومت آئندہ سال مارچ میں ہونیوالے سینیٹ انتخابات کے صبح کے سورج کے طلوع ہونے تک یہ آپریشن فور پلے کو برداشت کر لے گی؟ بظاہر کوشش تو یہی لگ رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ جمہوری حکومت اور حکمران جماعت اقتدار کا سورج دیکھنے کی خاطر اپنے سر کے تاج کی بے حرمتی پر ہی راضی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس بے حرمتی کو جمہوریت کی خاطر ایک اور قربانی کا نام دیا جائے گا اور یوں "جمہوریت کا تسلسل" برقرار رہے گا۔ ا±س جمہوریت کا تسلسل جس میں نام نہاد اقتدار باپ کو مار کر بیٹی کو دیا جاتا ہے، پھر بیٹی کو مار کر شوہر کو یا پھر بھائی کو ہٹا کر اسکے چھوٹے بھائی کو۔ یوں "اقتدار اور جمہوریت" کی وراثت خاندان سے باہر بھی نہیں جاتی اور یہ خاندان اپنی اوقات سے باہر بھی نہیں ہوتے ۔
اس سب کے بعد جو بھی وزیراعظم آئےگا وہ اپنے اپنے تیس چالیس سال پرانے مالی معاملات کی کھوج میں لگی ان قوتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتا رہے گا جو دشمن سے زیادہ اپنے ملک کے سیاستدانوں، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سرکاری افسروں کی نجی زندگیوں کی نگرانی میں مزہ لیتے ہیں۔ ہر وزیراعظم ایک سکینڈل اور ایک عدالتی فیصلے کی مار ہوگا تو پھر ایسے میں یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ مارشل لاءنہیں آ رہا۔ شیخ رشید صاحب فرماتے ہیں کہ جب تازہ دودھ ویسے ہی مل رہا ہو تو بھینس پالنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے (منقول)۔ اسی طرح آپریشن فورپلے ،فاو¿ل پلے میں کب تبدیل ہوتا ہے یا ہو چکا ہے،اب تو یہ کہنا بھی ناممکن ہے۔

مزیدخبریں