ہمارے ہمسائے اور امریکی پالیسی

کہاوت ہی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اچھا ہمسایہ بہت بڑی نعمت ہے۔ دینی طورپر ہمسایہ کے بہت حقوق ہوتے ہیں مگر یہ کبھی یکطرفہ نہیں ہوتے۔ جو فرائض کسی ایک ہمسایہ پر لازم ہوتے ہیں‘ دوسرے پر بھی ان کا اسی طرح احترام کرنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ دنیاوی طورپر بھی اس طریق کار کا نہ صرف احترام ہوتا ہے بلکہ مثال بھی دی جاتی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہوتے‘ دوستیاں تبدیل ہوتی ہیں۔ دشمن بدل جاتے ہیں مگر ہمسائیگی تبدیل نہ کی جا سکتی ہے اور نہ قطعہ زمین کو اٹھا کر کہیں اور لے جایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا المیہ ہے کہ اسکے ہمسایوں میں سے دائیں بائیں دونوں اطراف سے کبھی خیر اور جذبہ خیرسگالی کا نہ پیغام آیا اور نہ ہی انکی یا انکے باعث پیدا ہونے والی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہا جا سکا۔ ممکن ہے اس میں ہمارا بھی کوئی قصور ہو مگر ایک طرف جارحیت اور دوسری طرف جارحیت کا ساتھ دینے والا ہمسایہ‘ افغانستان تو 1947ءمیں ہماری مخالفت اقوام متحدہ میں کر چکا اور بھارت کشمیر پر جارحیت‘ قبضہ‘ پاکستان میں عدم استحکام کیلئے ہرممکن حد تک کوشش ہی نہیں بلکہ جنگی جارحیت کے ذریعہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا چکا۔ فی الوقت دنیا کی واحد سپر پاور ہمارے دائیں اور بائیں دونوں ہمسایوں کو ہمارے لئے مزید سہولیات دیکر خطہ میں نہ صرف امن و امان کو تباہ و برباد کرنا چاہ رہی ہے بلکہ موجودہ غیر تسلی بخش صورتحال کو ابتر کرکے اپنے سیاسی مقاصد کا حصول بھی چاہتی ہے۔
گزشتہ دنوں ہمارے ذہین و فطین وزیرخارجہ اپنی قابلیت‘ علمیت‘ استدلال اور دلیل کے ساتھ گفتگو میں کماحقہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہوئے امریکہ جا کر پانسہ ہی پلٹ آئے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ کے ساتھ ہاتھ باندھے میرے قابل قدر وزیرخارجہ نے امریکہ کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ انکے کئی وفود اب پاکستان آرہے ہیں۔ اب جبکہ امریکی وفود حکومت پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر لاٹھی اور گاجر کا طریقہ اختیار کرینگے تو کیا ہم صرف مرعوب ہوکر ان کی تمام شرائط کو تسلیم کر لیں گے یا پھر پابندیوں کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار ہونگے۔ ہم پر امریکی پابندیاں کوئی پہلی بار تو نہیں لگ رہی ہونگی مگر کیا ہمارے ارباب اختیار اسی بات کو بھی کوئی اہمیت دینگے کہ تمام صورتحال وقت سے پہلے ہی پارلیمنٹ اور عوام کو اعتماد میں لیکر کوئی رائے قائم کر سکیں۔ امریکہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے انکے اندر اس پر بھی بات ہو رہی ہے کہ پاکستان کو ایک چانس اور دیدیا جائے۔ امریکی چانس حاصل کرنے کی پالیسی ان دنوں ہماری اندرونی سیاسی کہانی پر بھی اثرات مرتب کرےگی۔ گو وزیراعظم شاہد خاقان برملا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پر انحصار کی پالیسی اب تبدیل ہو چکی ہے اور ہم دہشتگردی کےخلاف جنگ اپنے وسائل سے لڑ رہے ہیں۔ گویا ہماری فارن پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی وقوع پذیر ہو چکی ہے۔ 60ءاور 70ءکی دہائی میں دنیا بھرکے اہم ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں نمایاں تبدیلیاں منظرعام پر آئی تھیں۔ خود امریکہ نے چین کے ساتھ روابط کا آغاز کیا تھا اور اس میں پاکستان کا بہت ہی اہم رول تھا۔ امریکی صدر نکسن نے روس کے ساتھ بھی معاملات کو بہتر کرنے اور ایک دوسرے کو براہ راست سمجھنے کی کوشش کا آغاز کیا تھا۔ امریکہ نے پاکستان کے مقابلے میں ترجیحی بنیادوں پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے کا آغاز کر دیا تھا۔
60ءاور 70ءکی دہائی میں ذالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوئی تھی مگر جلدہی ان کو منظر سے ہمیشہ کیلئے ہٹا دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف مقبول وزیرخارجہ بلکہ لیڈر تھے مگر خودفریبی کا بھی بہت بڑا شکار تھے۔ انکی شخصیت نے دوستوں کی بجائے دشمنوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ کیا تھا۔ ان کی صاحبزادی بھی ایسے ہی اوصاف کی مالک تھیں۔ بینظیربھٹو معاملہ فہم تھیں مگر وہ اپنے امریکہ اور فوج کے درمیان معاملات میں توازن قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ اگر وہ مرد ہوتیں تو شاید ان کیلئے اپنی بھاری بھرکم شخصیت کو لیکر چلنا آسان ہوتا۔ خارجہ امور کے بارے کہا جاتا ہے کہ جب کسی ملک کے مفادات اس کو حاصل ہو جائیں یا اسکے مفادات تبدیل ہو جائیں تو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا آغاز لازمی ہو جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود وزیرخارجہ کے علمی‘ ادبی‘ سیاسی اور بین الاقوامی امور کے علاوہ سفارتکار ہونا بھی اس کے کام کو آسان بنا دیتا ہے۔
فقرہ بازی سیاست میں تو کام آتی ہے مگر سفارتکاری میں نہیں۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قوم کو بتائیں کہ امریکہ چاہتا کیا ہے۔ کیا امریکہ بھارت کی طرز پر سوچ رہا ہے کہ پاکستان کی بطور خودمختار ریاست مشکلات میں اضافہ کیا جائے اور پاکستان دشمن عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع دیدیا جائے۔ یا پھر پاکستان کے ساتھ ایک بار پھر معاملات کو ان کی تہہ تک جا کر حل کرنے کی کوئی بھرپور کوشش کی جائے۔
یہ تو درست ہے کہ امریکی صدر کی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد حکومت نے سفارتکاری میں ایک نئی جہت کے ساتھ کوشش کی ہے اور اسکے نتیجہ میں وزیراعظم نے امریکی نائب صدر کے ساتھ انکی خواہش پر ملاقات بھی کی۔ اب احسن اقبال بھی امریکہ اسی سلسلہ میں جا رہے ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی نے افغانستان میں داعش اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں بھی انکشاف کر دیا ہے۔ بقول انکے امریکہ داعش کو افغانستان میں نہ صرف سہولتیں دے رہا ہے بلکہ ہیلی کاپٹر تک بھی مہیا کئے جا رہے ہیں۔
شام‘ لیبیا‘ عراق‘ تیونس‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ افغانستان کے بعد امریکہ پاکستان میں بھی شورش بپا کرنے کی کوشش کریگا۔ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو بھارت اور افغانستان کے ذریعہ ہی ہر کام ہوگا۔ حکومت پاکستان بار بار یہ بات کر رہی ہے کہ دہشت گردوں کی پاکستان میں کوئی پناہ گاہ موجود نہیں مگر بھارتی ”را“ افغانستان کے راستے اور ذریعے پاکستان میں دہشت گردی پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کرتی رہتی ہے ۔ کلبھوشن یادیو اس کی واضح مثال ہے۔ امریکہ کے حوالے سے یہ تاثر بھی پاکستان میں موجود ہے کہ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ پنجاب میں فرقہ وارانہ اور جغرافیائی بنیاد پر امن و امان کا مسئلہ ہمارے ہمسایوں کے ذریعہ پیدا کر سکتا ہے اور اسکی وجہ پاکستان کی معاشی ترقی اور مضبوط دفاع ہے۔ گو ہم پر دباﺅ بڑھایا جانا ہی امریکی مقصود ہے۔
سی پیک کے بارے امریکی بیان اسی بھارتی مو¿قف کا اعادہ ہے جس کا اظہار بھارتی وزیراعظم خود چین جا کر بھی کر چکے ہیں۔ اس امریکی بیان سے ہمارے مو¿قف کو بھی تقویت ملتی ہے کہ سی پیک کے ذریعہ دنیا کے فاصلے نہ صرف سمٹ جائینگے بلکہ یہ پاک چین تعلقات کو مضبوط ترین کر دیگا۔ سی پیک پر ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یکجا اور متحد ہیں مگر امریکہ کے بارے میں صرف خدشات اور تشویش ہے۔ امریکہ ہمیں ہر مشکل میں چھوڑ جانے کا عادی ہے۔
پاکستان کے آج کے حالات کسی ایک حکومت یا مختصر عرصہ کی پالیسی کا نتیجہ نہیں۔ قیام پاکستان سے بھی ہمارے مغربی اتحادی ہمیں منجدھار میں چھوڑ جاتے رہے ہیں۔ ہم تو پُرامن زندگی گزارنے کیلئے آزادی کے طلبگار تھے مگر بھارت نے کشمیر میں فوجیں داخل کرکے خطے میں امن کی خواہش کا خانہ خراب کیا جبکہ برطانیہ بھی اس کا ذمہ دار ہے کہ اس نے بھارت کو ایسا کرنے سے روکا نہیں۔ مزیدبرآں باﺅنڈری کمشن میں بھی ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی۔ جب ہمیں اپنی سلامتی کو درپیش خطرات کا علم ہوا تو ہم بھی رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا گو ہماری بھی کمزوری رہی کہ ہم اپنا مقدمہ ٹھیک طرح نہ لڑ سکے مگر اقوام متحدہ کی وجہ سے خطہ میں غیرمتوازن صورتحال پیداہوئی اور یو این اے اقدامات بین الاقوامی اصولوں‘ قانون اور انصاف کے تقاضوں کیخلاف تھے۔
70 برس سے ہم اپنی بقا‘ استحکام‘ خودمختاری اور معاشی ترقی کیلئے کوشش کر رہے ہیں اور دوسری جانب ہمیں بھارتی بالادستی تسلیم کرنے کا سبق دیا جا رہا ہے۔ دنیا کے رویوں‘ بھارت کی جارحانہ جنگجویانہ پالیسی نے ہمیں ایٹمی طاقت بننے پر مجبور کر دیا تھا۔ آج جب داعش افغانستان میں آچکی ہے اور ہماری عسکریت قیادت ردالفساد کے ذریعہ اپنی پالیسی پر گامزن ہے امریکہ کا ڈد مور کا تقاضا ایک بار پھر نئے تقاضوں کے ساتھ منظرعام پرآچکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم 70 سالہ امریکی دوستی کی پالیسی پر قومی قیادت کو اعتماد میں لیکر کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں۔ امریکی امداد کے بغیر ہم زندہ رہیں گے‘ لیکن خوف کی فضا میں ہماری نئی نسل ایک ذہنی غلامی کا شکار ہو جائیگی۔ ممکن ہے ہمیں کچھ قیمت بھی ادا کرنا پڑے مگر یہ پابندیاں کوئی نئی نہیں ہونگی۔ امریکہ کا بھی ہمارے بغیرگزارہ نہ ہو سکے گا۔ ڈرون حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔ فوجی اور اقتصادی امداد پہلے بھی بند ہوتی رہی ہے ہمیں افغانستان اور بھارت کو یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ ہم نے کہا تھا کہ گھاس کھا کر بھی زندہ رہیں گے مگر اپنے دفاع کیلئے ایٹم بم بھی بنائینگے۔ درست کہا ہے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ امریکہ پر انحصار ماضی کی بات ہے۔ ہمیں عزت وقار اور احترام کی ضرورت ہے اور یہ بھی اس وقت ہمارے پاس کم ہے۔ اگر ہماری قیادت نے اتحاد پیدا کرکے سنگین صورتحال کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تو امریکہ بھارت یا افغان پالیسی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی اور سی پیک کو متنازعہ علاقہ سے گزارنے کی بات کرکے بھارت اور امریکہ نے مسئلہ کشمیر کی بات کی۔ اگر مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو تمام شکایات‘ مشکلات خودبخود ختم ہو جائیں گی۔
امریکہ اور بھارت کو چاہئے کہ وہ کشمیر کے اندر صورتحال کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دیکر مظالم بند کریں۔

ای پیپر دی نیشن