میجر جنرل آصف غفور…پالیسی کی وضاحت

لندن میں پاک فوج کے ترجمان آصف غفور کی پریس کانفرنس اس حوالے سے غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ اس میں ترجمان نے بڑی حد تک فوج کے حالیہ اور مستقبل کے کردار کی بہت واضح وضاحت کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پاک فوج اب پہلے سے مختلف ہے‘‘ انہوں نے جمہوریت سے وابستگی کا اظہار کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جنرل صاحب نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کونہایت فراخ دلی سے خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے فوج کی ہر ضرورت پر توجہ دی۔‘‘
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ جناب نوازشریف کو یہ شکایت رہی کہ ان کے خلاف نیب کی کارروائی میں متعدد حلقوں کا ہاتھ تھا۔ معامالات کو خراب کرنے میں جناب آصف علی زرداری کے بیانات، PTI کے الزامات، شیخ رشید کی تقریروں اور جناب اعتزاز احسن کی بے وقت قانونی تعبیرات نے اہم کردار ادا کیا۔:؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے اثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
جناب نواز شریف کو گھیر کر سپریم کورٹ لایا گیا، پھر جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اب عدالتوں کی پیشیاں ہیں اور جناب نواز شریف… ایک بہت بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اسلام آباد میں جناب عمران خان کی حکومت! نوازشریف، حیرت سے دیکھتے تو ہوں گے۔ کیا یہ وہی اسلام آباد ہے۔
اس بیوفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اشک رواں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
فوجی ترجمان جناب آصف غفور کے بیان میں واضح پیغام ہے کہ سیاسی رہنا ’’انا‘‘ کی جنگ کو ترک کر کے فوج کی عزت، وفا اور احترام کے معاملے میں سنجیدہ ہو جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ 7 نہیں دو آرمی چیف ملک سے باہر ہیں۔ جنرل راحیل شریف، پاکستان کی اجازت سے سعودی عرب میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشرف جانیں اور ان کی سیاست، سیاست کریں گے تو ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بھارت سے پاکستان کی دوستی ہے یا دشمنی؟ ظاہر ہے۔اس معاملے میں پاکستان کے سیاستدانوں کو فوج کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ اس حوالے سے فوج دائیں کو جائے تو سیاستدان بائیں جانب چل پڑیں۔ ایک حقیقت پسندانہ راہ اپنانی ہو گی۔ مُلک ایسے ہی چلائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی بھارت کی برتری domination کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
جنرل غفور نے مُجاہدانہ انداز میں اعلان کیا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ایک سر جیکل اسٹرائیک کرے گا تو پاکستان اس کے خلاف دس کرے گا۔ اُنہوں نے دُرست کہا کہ جس ملک کی فوج مضبوط نہ ہو وہ مُلک ٹوٹ جاتا ہے۔ 1971ء کی سنگین غلطیوں نے ہمارا جغرافیہ تبدیل کر دیا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ سیاسی اختلافات ہوتے ہیں۔
ہم شاید دُرست نشاندہی کریں گے کہ بھارت سے تعلقات کے حوالے سے نوازشریف کی سیاسی حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان communication اور ڈائیلاگ کا Process نہیں تھا۔ ایک راستے پر چلنے کا واضح فیصلہ نہیں تھا۔ دو مختلف سمتوں میں چلنے سے دوری پیدا ہوئی۔ مگر یہ ماضی ہے اور اسے درمیان میں لا کر ہم ملک کی خدمت نہیں کریں گے۔ دونوں کا ایک Page پر ہونا ضروری ہے۔ I.S.P.R کے سربراہ نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے خلاف عالمی سازشیں ہو رہی ہیں۔ اگر صورتحال یہ ہو کہ میری بریادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں، تو پھر کون سا وقت ہو گا جب ہم اتحاد اور یکجہتی قائم کریں گے۔ جناب آصف غفور نے سی پیک کا دفاع کیا۔ مُسلم لیگ ن بہر صورت سی پیک کے ساتھ ہے۔ PTI کے حوالے سے خبروں میں صداقت ہے کہ نہیں کہ وہ سی پیک کے حوالے سے امریکن Point of view کی حمائت کر رہی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے حوالے سے I.S.P.R سر براہ نے مسلم ن لیگ کی حکومت کی تعریف و توصیف سے ذرا بخل سے کام نہیں لیا۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کی منظوری دی اور مکمل تعاون کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے فوج کی ہر ضرورت پر توجہ دی اور سرحد محفوظ بنانے کے لئے رقم دی۔ جنرل راحیل شریف کے بار ے میں میجر جنرل آصف غفور نے بتلایا کہ وہ حکومت کے منظور شدہ معاہدے کے تحت سعودی عرب میں ہیں۔ واضح رہے کہ یہ معاہدہ نواز شریف دور میں ہوا تھا۔
معاملہ ان ریمارکس کا نہیں ہے جو میجر جنرل آصف غفور نے دئیے ہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ فوج کے ترجمان نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ہم نوائے وقت میں شائع ہونیوالے پچھلے کالم میں رائے دے چکے ہیں کہ فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کا نوازشریف سے کلثوم نواز کے حوالے سے اسلامی اقدار کے حوالے سے تعزیت ایک فریضہ ہے جس کو ادا ہونا چاہئے۔ ’’ایک ملاقات بہت ضروری ہے‘‘:
بیٹھیں گے تو اچھا منظر ہو گا
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں
اگر ٹرمپ، پیوٹن ملاقات ممکن ہے تو یہ کیوں نہیں؟ میجر جنرل آصف غفور نے اچھی ابتداء کی ہے۔ ملاقات کا جواز ہے۔ ہماے سیاستدان جنرل آصف غفور کے انٹرویو کا ’’بین السطور‘‘ بھی جائزہ لیں گے تو ظاہر ہو گا کہ فوج ملکی سیاست میں کسی کے ساتھ نہیں ہے۔ فوج پاکستان اور اس کی یکجہتی کے ساتھ ہے۔ صرف پاکستان کے ساتھ ہے ایک بات واضح ہے کہ انڈیا ایک سرجیکل سرائیک کرے گا تو پاکستان دس کرے گایہ فوج کے ترجمان کا واضح اعلان ہے۔

ای پیپر دی نیشن