قوم کے محسن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے دست راست ، قیام پاکستان میں صف اول کے رضا کارـ پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان ؒکی برسی خاموشی سے گزر گئی۔نوائے وقت اور ایک اور اردو روز نامے میں محض ایک آدھ مضمون چھپا۔انگریزی روزنامے اور ٹی وی چینلوں نے اس دن کو نظر انداز کیا۔پی ٹی وی پہ میں نے2009ء میں خصوصی پروگرام تشکیل دیا تھا ۔جس میں قائد ملت لیاقت علی خانؒ کے پوتے یعنی لیاقت علی خانؒ کے بڑے صاحبزادے نوابزادے ولایت علی خان کے بیٹے نوابزادہ مشرف علی خان ،لیاقت علی خانؒ کی سوانح حیات کے مصنف ڈاکٹر محمد رضا کاظمی اور قائد اعظمؒ اور ان کے بعد دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کے اے ڈی سی برگیڈئیر نور احمد حسین شریک ہوئے تھے۔تینوں نے لیاقت علی خان کے بارے میں جو باتیں بتائیں تھیں، وہ اتنی اہم ہیں کہ ان کا اس مضمون میںدہرانا لازمی ہے۔دوران گفتگویہ انکشاف ہوا کہ لیاقت علی خانؒ کی قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کے لئے بیش بہا خدمات ہیں،جنہیں نظر انداز کرنا سر ا سر نا انصافی بلکہ ظلم ہے۔برگیڈئیر نور حسین جو اب خود اپنے خالق حقیقی سے جاملے ،نے بتایا تھا کہ 1933ء میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس اور مسلمانوں کی آپس میں چپقلش سے دلبرداشتہ ہو کر جب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ لندن چلے گئے تھے تو وہاں جا کر ہندوستان واپسی پہ رضا مند کرنے والے لیاقت علی خانؒ ہی تھے۔قائد اعظم ؒکی واپسی کے بعد دونوں نے مل کر مسلم لیگ کو از سر نو ترتیب دے کر مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی خاطر انتھک محنت کی۔ڈاکٹر سید کاظمی نے بتایا کہ1946ء کی عبوری حکومت میں لیاقت علی خانؒ نے فائنینس ممبر یعنی وزیر خزانہ کا اہم قلمدان قبول کیا۔ہندوئوں کا یہ خیال تھا کہ حساب کتاب تو ہندوئوں کا شیوہ ہے جبکہ مسلمان ہونے کے ناطے لیاقت علی خان اس میں نا کام ہو جائیں گے اور آئندہ مسلمانوں کو کوئی اہم رتبہ نہ دینے کا عذر بن جائے گا۔لیکن لیاقت علی خانؒ نے ایسا بجٹ پیش کیا جو کہ آج تک ــ''غریبوں کا بجٹ'' کہا جاتا ہے۔برگیڈئیر نور حسین نے انکشاف کیا کہ بطور وزیر خزانہ لیاقت علی خانؒ نے بینک آف انگلینڈ اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا کو خط لکھ کر درخواست کی کہ لاہور،پشاور،کوئٹہ،کراچی اور ڈھاکہ کے بینکوں میں نئے کرنسی نوٹ چھاپ کر جمع کرائے جائیں ۔لیاقت علی خانؒ کی دوراندیشی کا یہ عالم تھا کہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان ناگزیر ہے اور نو زائدہ پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت پیسوں کی ہوگی۔یہی ہوا کہ آزادی کے بعد بھارت نے پاکستان کو اس کے حصے کی رقم ادا کرنے میں لیت ولعل سے کام لینا شروع کیا تو لیاقت علی خان ؒکی جمع کروائی ہوئی رقم کام آئی۔ڈاکٹر رضا کاظمی اور برگیڈئیر نور حسین نے ایک اور اہم بات بتائی کہ مائونٹ بیٹن اور ہندو پاکستان کے قیام پہ راضی ہو گئے لیکن وہ چاہتے تھے کہ بھارت اور پاکستان کی فوج مشترکہ ہو۔لیاقت علی خانؒ کی دوراندیشی ایک مرتبہ پھر کام آئی۔انہوں نے قائد اعظم ؒکو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مائونٹ بیٹن سے یہ مطالبہ کریں کہ دونوں ملکوں کی فوج علیحدہ ہونی چاہئے۔لیاقت علی خان کو اندازہ تھا کہ ہندو تقسیم ہند کے بعد شرارت کریں گے ۔ان کو بچانے والی پاکستان کی فوج ہی ہوسکتی ہے۔پاکستان کے قیام کے بعد مہاجروں کی کی آبادکاری کے لئے لیاقت علی خان نے شب وروز ایک کر دئیے۔ان کے پوتے نے بتایا کہ قیام پاکستان سے قبل ان کی بے انتہا جاگیریں تھیں لیکن وہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں ایک اینٹ بھی کلیم نہ کی ۔حتیٰ کہ ان کے انتقال کے وقت ان کی شیروانی رفو شدہ تھی۔بنیان میں سوراخ تھے اور بینک میں مبلغ 1200 روپے تھے۔برگیڈئیر نور نے بھیانکشاف کیاکہ ایک دفعہ ان کی بیگم نے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین سے شکایت کی تھی کہ اگر ان کے خاوند کو کچھ ہوگیا تو وہ اوران کے بیٹے بے سر و سامان ہوںگے۔اس پہ لیاقت علی خانؒ نے انہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا تھا کہ پہلے ان کی ذمہ داری ہے کہ سات کروڑ پاکستانیوں کو آباد کریا جائے پھر ان کی باری آئے گی ،جو کبھی نہ آئی۔
برگیڈئیر نورنے تذکرہ کیا کہ جب قیام پاکستان کا اعلان ہوگیا تو کچھ رپورٹروں نے لیاقت علی خان ؒسے پوچھا کہ پاکستان بننے کے بعد آپ کیا عہدہ لینا پسند کریں گے؟کیا آپ گورنر جنرل بنیں گے یا وزیر اعظم ؟اس پر لیاقت علی خانؒ کا جواب تھا کہ ''آزاد پاکستان میں ایک چپڑاسی کی حیثیت سے بھی خدمت کرنا میرے لئے باعث فخر ہوگا''گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی نے بھی اپنی کتاب ''مسلم مائنڈز آف انڈیا "میں واقعے کا ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر رضا کاظمی نے قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خانؒ کی خدمات گنواتے ہوئے بتایا کہ لیاقت علی خان ؒنے وزیر اعظم ؒکے علاوہ امور خارجہ دفاع اور دولت مشترکہ کے معاملات بھی قائداعظم ؒ کے کہنے پہ اپنے پاس رکھے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان قائم کر کے آپ نے معاشی طور پر اپنے قدموں پہ کھڑا ہونے میں پاکستان کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا۔پاکستان ایک آئین دینے کا جستجو میں ''قرار داد مقاصد''تشکیل دیا جو کہ 1973ء کے آئین کا پیش خیمہ بنا ۔بھارت نے اپنی کرنسی ڈی ویلیو کی تو برطانیہ نے پاکستان پہ زور دیا کہ پاکستان بھی روپے کی شرح میں کمی کرے'تو لیاقت علی خانؒ نے انکار کیا کیونکہ اس وقت مشرقی پاکستان میں پٹ سن یعنی جوٹ کی کوئی فیکٹری نہ ہونے کی وجہ سے تمام جوٹ کو بھارت بھیجا جاتا ۔روپے کی شرح کم ہونے کا اثر مشرقی پاکستان کے کاشت کاروں پہ پڑتا ۔بھارت نے غصے میں آ کر مشرقی پاکستان سے جوٹ خریدنا بند کر دیا تو لیاقت علی خانؒ نے پاکستانی صنعت کاروں کی مدد سے فوری طور پر جوٹ ملیں قائم کروائیں جس کے لئے مشرقی بنگال کے باسی آج بھی انہیں دعائیں دیتے ہیں۔مشرقی پاکستانیوں کو قومی دھارے میں لانے کی خاطر آپ نے بیش بہا خدمات انجام دیں انہیں سول سروس میں ملازمت ولوانے کی خاطر آپ نے خصوصی کو ٹہ مقرر کیا۔
بنگالیوں کو فوج میں شامل ہونے میں شامل ہونے میں اپنے پستہ قد کی وجہ سے دشواریوں کا سامنا تھا تو آپ نے ان کے لئے قد کے معیار کی قید میں بھی چھوٹ دے دی۔
چند برس قبل لیاقت علی خان ؒکے پوتے ایک گروپ کے ساتھ ڈھاکہ تشریف لے گئے۔سیر کی خاطر ہوٹل سے انہوں نے ایک ٹیکسی کرایہ پہ لی ۔ٹیکسی ڈرائیور نے ان سے استفار کیا کہ میں نے سنا کہ لیاقت علی خانؒ کے پوتے بھی آپ کے گروپ میں ہیں ،نوابزادہ مشرف علی خان نے اقرار کیا کہ وہی لیاقت علی خان ؒکے پوتے ہیں تو اس نے گاڑی روکی اور انہیں گلے لگایا اور ان کے ہاتھ چومے،پھر تعظیم سے پائوں چھوئے اور درخواست کی کہ وہ ان کے گھر چلیں کیونکہ اس کے بوڑھے والدین سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔مشرف علی خان راضی ہو گئے۔ٹیکسی ڈرائیور انہیں اپنے گھر لے گیا اور اپنے ضعیف 'معذور والد کو بنگالی میں بتایا کہ ان کے مہما ن کون ہیں تو اس نے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے مشرف علی خان کا ہاتھ تھام کر اپنی آنکھوں سے لگایا۔یہ بتاتے ہوئے نوابزادہ مشرف علی خان کا گلا رندھ گیا خصوصا جب انہوں نے بتایا کہ اس گھر میں دو ہی تصویریں تھیں ۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور لیاقت علی خان ؒکی۔
برگیڈئیر نور نے بتایا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ قائد اعظم ؒ اور لیاقت علی خانؒ میں آخری دنوں میں کچھ غلط فہمی پیدا ہو گئی تھی۔چونکہ برگیڈئیر نور قائد اعظم ؒ کے اے ڈی سی تھے اور ان کے ساتھ رہے۔لہذا وہ چشم دید گواہ ہیں کہ ا س میں کوئی صداقت نہیں اس کے بر عکس قائد اعظم ؒ فرماتے تھے کہ "میں نے پاکستان کو پایا جبکہ لیاقت علی خانؒ نے پاکستان کو بنایا"انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لیاقت علی خانؒقائد اعظم ؒ کی اتنی زیادہ عزت کرتے تھے کہ وہ کبھی ان کے شانہ بشانہ نہیں چلتے بلکہ ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیشہ ایک قدم پیچھے اور ان کے بائیں جانب چلتے'اس وقت کی تمام تصاویر بھی گواہ ہیں ۔نوابزادہ مشرف علی خان نے یہ بھی بتایا کہ جب لیاقت علی خانؒ نے یہ بھی بتایا کہ جب ان کی والدہ اور مشرف علی خان کے والد نوابزادہ ولایت علی خان ؒان کی بیوی اور مشرف علی خان قیام پاکستان کے بعد مہاجروں کے کے قافلوں کے ساتھ پاکستان کی سر زمین میں داخل ہوئے تو انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے۔لیاقت علی خانؒ جو اس وقت وزیر اعظمؒ تھے نے نہ ان کا استقبال کیلئے وزیر اعظم نے کوئی گاڑی بھیجی نہ کوئی وی آئی پی پروٹوکول کا بندوبست کیا بلکہ انہیں مشورہ دیا کہ وہ لاہور میں آبادد ہوں ورنہ لوگ یہ کہیں گے کہ انھوں نے اپنے گھر والوں کو لا کر کراچی میں بسا دیا ۔
نواب مشرف علی خان نے یہ بھی بتایا کہ لیاقت علی خانؒ کی والدہ کا لاہور میں 1964ء میں انتقال ہوا۔اس وقت کے صدر ایوب خان نے لیاقت علی خان کے بیٹے ولایت علی خان کو ٹیکسٹایل مل میں لگانے کاپر مٹ دیا ۔کئی برس بعد نواب مشرف علی خان ایک ادارے میں کام کر رہے تھے۔جس کے سر براہ کئی ٹیکسٹائل ملوں کے مالک تھے۔انہوں نے مشرف علی خان سے درخواست کی کہ وہ ان کے والد نوابزادہ ولایت علی خان سے ملنا چاہئے ہیں ۔ملاقات پہ انہوں نے ولائت علی خان سے درخواست کی کہ ٹیکسٹائل مل کا وہ پر مٹ ان کے ہاتھ فروخت کر دیں اور وہ اتنا معاوضہ دیں گے۔جس پہ نوابزادہ ولائت علی خان نے معذرت کی اور انہوں نے وہ پرمٹ تو ایوب خان کو واپس کر دیا تھا۔نوابزادہ مشرف علی خان نے اپنے والد سے پوچھا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تو ان کے والد نے جواب دیا کہ ان کے پاس ٹیکسٹائل مل لگانے کے پیسے نہیں تھے اور اگر وہ پرمٹ فروخت کرتے تو دنیا بھر میں بدنام ہو جاتے کہ ''لیاقت علی خانؒ کا بیٹا پرمٹس بیچ کر گزارا کر رہا ہے۔اب ان کی اولاد سر فخر سے اٹھا کر چلنے کے قابل رہے گی۔
پروگرام کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا کہ اپنے آخری خطاب میں لیاقت علی خانؒ پاکستان سے جاگیر دار انہ نظام کے خاتمے کا اعلان کرنا چاہتے تھے۔تقریر شرع کرنے سے قبل ہی انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا۔قوم کے اس بے لوث خادم اور محب وطن پہ قاتلانہ حملہ کرنے کی خاطر سازشیوں کو کوئی پاکستانی بھی میسر نہ ہو سکا جو انہیں قتل کرنے پہ آمادہ ہوتا اور افغانستان سے ایک کرائے کا قاتل سید اکبر لایا گیا ۔قائد ملت پہ گولی چلانے کے بعد وہ قاتل کو خاموش کر دیا گیا ۔قائد ملت کے سینے میں تین گو لیاں پیوست ہوئیں وہ لڑ کھڑاکر گر ڑے اور کلمہ پڑھنے کے بعد ان کے آخری الفاظ تھے"اللہ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے "۔
قائد ملت لیاقت علی خانؒ کی برسی خاموشی سے گزر گئی
Oct 22, 2018