لہُو لہان مقبوضہ کشمیر کوذی فہم و ذی شعور دمسازوں اور بہی خواہوں کی جتنی ضرورت اس وقت ہے شاید ہی اپنی صعوبتوں بھری تاریخ کے کسی اور دور میں رہی ہو۔ مودی سرکار کی جانب سے کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کی شق 370 کو اچانک تحلیل کرنے کے غیر قانونی اور غیر منصفانہ عمل کے ذریعے کشمیر کی ریاستی انفرادیت، قومی تشخص اور معاشرتی شناخت کو تباہ کرنے کے کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیاہے۔کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی اِس قابلِ نفرین حرکت کے بعد بھی کشمیر کی یکتائی تو قائم و دائم ہے لیکن بھارت کی جمہوریت، سیکولرازم اور قانون کی بالادستی کے اصولوں کے نقوش بد نُماہو کربالکل ہی ناقابلِ شناخت ہوگئے ! بہرحال اِس وقت کشمیر کے اسّی لاکھ عوام بھارتی دیوِاستبداد کے خونی پنجوں میںپھنسے ہوئے ہیں ۔ ایک لاکھ کشمیریوںکی شہادت کے بعدبھی بھارتی فوج انتہائی ڈھٹائی سے بربریت کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے ۔کشمیر مملکتِ خدادادِ پاکستان ہے۔کشمیرپاکستان کے اجتماعی ملّی شعور و آگہی کا جزو بھی ہے اور تاریخی، قانونی اور اخلاقی اعتبارسے ریاستِ پاکستان کا اٹوٹ انگ بھی۔ کشمیر برِصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا توبلا شبہ ہے ہی لیکن یہ عصرِحاضر کے چند اہم ترین سیاسی اورا نسانی مسائل میںسے ایک نہایت تکلیف دہ مسئلہ بھی ہے۔ کشمیر کی بے پناہ مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے ہمیںاِس وقت اپنے سامنے یہ سوال رکھنا چاہئے کہ بطورِریاست اور من حیث القوم ہم ایسے کیااقدامات اُٹھاسکتے ہیںجن کے ذریعے ہم اپنے کشمیر ی ہم جلیسوںکی بھرپور مساعدت اورحمایت کر سکیں۔ کشمیر کے مسئلے کی بنیادی طور پرچار جہتیں ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ مظلوم کشمیریوں پر بھارتی سامراج کے شدید ترین ظلم و استحصال کو روکنے کی کیا سبیل ہو۔ نمبر دو یہ کہ بھارت کو کیسے مجبور کیا جائے کہ آئین کی شق 370 کوبحال کرے تاکہ کشمیر کا جداگانہ تشخّص محفوظ ہوسکے۔ نمبر تین یہ کہ دنیا کی توجہ اِ س خونی مسئلے کی طرف کس قاعدے اور ڈھنگ سے مبذو ل کروائی جائے اور نمبر چاریہ کہ کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کروا کر مملکتِ پاکستان کا حصّہ کس طرح بنایا جائے۔ ہمیں احساس ہونا چاہیے کہ کشمیر کے تہدار معاملات کا حل ایک طویل و صبر آزما جدو جہدکے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔پاکستان نے ہمیشہ بڑے بھرپور طریقے سے کشمیر کا مقدمہ لڑا ہے لیکن بلاشبہ ابھی عشق کے بے شمار امتحان باقی ہیں۔اِس حوالے سے پاکستان کو سب سے پہلے اپنے آپ کو معاشی طور پرتوانا و مستحکم کرنا ہو گا۔ معاشی کمزوری اس طاقت پرست اور قوت پسند دنیا میںایک ناقابل ِمعافی کمزوری ہے۔ معیشت طاقت کا عظیم ترین سر چشمہ اور فوجی طاقت کی اساس ہے۔ معیشت تلوار کی دھار بھی ہے اور حرف ِاظہار کی معنی خیزی بھی۔ٹینک کے آگے بڑھنے کی خوفناک آواز،جنگی جہاز کا جنّاتی غلغلہ، دلیل کا طلسماتی اثر اور الفاظ کی جادوئی کاٹ معاشی طاقت کے سبب ہی دستیا ب ہوتی ہیں۔ مذاکرات کی میز بھی دراصل میدانِ جنگ ہی ہوتی ہے اور اِس میدانِ جنگ میں بھی اُس فریق کی بات میں ہی وزن ہوتا ہے جس کی معیشت طاقتور ہو اور جو اپنی بات کو بذریعہ طاقت منوانے کے ظاہری اسباب رکھتا ہو۔ ایک اور اہم مسئلہ ملک کا اندرونی خلفشار ہے ۔ کسی بھی ریاست کی معاشی طاقت بے معنی ہو جاتی ہے اگر وہ سیاسی، معاشرتی، نظریاتی، انتظامی اور نفسیاتی طور پر منظّم نہ ہو۔ اندرونی خلفشار کاروبارِ ریاست کو کبھی بطریقِ احسن چلنے نہیں دیتا۔ بد قسمتی سے ہم ابھی تک بنیادی ریاستی معاملات کو عقل و شعور،سودمند قوانین او ر دنیا کے بہترین انتظامی تجربات کی روشنی میں چلانے سے قاصر رہے ہیں۔کشمیر تک پہنچنے کے لئے اِس اندرونی خلفشار کا خاتمہ نہایت ضروری ہے۔ ایک مستحکم ریاست ہی دوسری ریاستوں کے ساتھ متنازعہ امُور کے حوالے سے موثر انداز میں معاملات طے کر سکتی ہے۔ یہی حال سفارتی معاملات کا بھی ہے۔ بین الاقوامی سفارتی منطقے میں ریاستوں کی اپنی اپنی قدر و وقعت ہوتی ہے۔ کسی بھی ریاست کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اوراِس کے بارے میں دنیا کی عمومی سوچ اسے مضبوط یا کمزور کرتی ہے۔ دورِحاضر میں ریاستوں کے تعلقات بیک وقت سائنس بھی ہیں اور آرٹ بھی۔ آج کی دنیا میں سفارتکاری پُلِ صراط پر چلنے کے مترادف ہے۔ مختلف ریاستوں اور ریاستی گروہوں کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ، غنیموں کے ساتھ سفارتکاری کے مروجہ اصولوں کے مطابق برتاؤ کرنا، بین الاقوامی اداروں میں اپنے ملک کے معاملات کا پُر اثر دفاع کرنا اور ایسے تمام مسائل کے بارے میں اصولی اور دو ٹوک موقف اختیار کرنا جو دنیا کی اجتماعی سیاسی بصیرت کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہوںاعلیٰ سفارتکاری کے بنیادی اوصاف ہیں۔ ہمیں بہترین سفارتکاری کی جتنی حاجت لمحہ ٔموجود میں ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ہمیں اِس حقیقت کا احساس ہونا چاہئے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے پاکستانی ریا ست کواپنی بازیافت اورخودآگاہی کی طویل رہگزار پر ایک کٹھن اور صبرآ زما سفر کرنا پڑے گا۔ اپنی شہ رگ کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ پاکستان یقینا اِس امتحان میں بھی کامیاب ہوگا۔