مولانا فضل الرحمن کے لانگ مارچ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔معروضی حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ اونٹ چاروں شانے چِت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مولانا نے انصار الاسلام فورس تشکیل دی۔ اسے تربیت دی گئی جس کا اظہار اس فورس کی طرف سے مولانا کو سلامی دینے سے ہوتا ہے اور یہ سب اس وقت ہوا جب بھارت پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بلیک لسٹ میں شامل کروانے کیلئے کوشاں اور ایف اے ٹی ایف کا اجلاس ہو رہا تھا ۔ پاکستان گرے لسٹ سے بھی نکلنے کیلئے سرگرم تھا۔ گرے لسٹ میں بھی پاکستان کو گزشتہ حکومت کی سیاسی مفادات پر مبنی پالیسی نے شامل کرایا۔ جب وزیر اعظم نواز شریف نے شدت پسندی کے زمرے میں آنے والی پارٹیوں پر پابندی لگانے کی فوج کی طرف سے تجویزپر جواب دیا کہ اس سے حکومتی پارٹی کو سیاسی نقصان ہو گا اور پھر ڈان لیک سامنے آئی۔ جس میں وہ بات ہی نہ ہوئی جسے فسانہ بنا کر دنیا میں پھیلا دیا گیا کہ حکومت تو شدت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے مگر فوج آڑے آجاتی ہے۔بھارت ایسی چیزوں کو لیکر ایف اے ٹی ایف کے پاس چلا گیا جس نے بھارت کی شکایت پر پاکستان کوگرے لسٹ میں شامل کر لیا۔بھارت پاکستان کوبلیک لسٹ میں شامل کروانے کیلئے کوشاں ہے مگر پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کی ڈیمانڈز پوری کرنے کی کوشش کی گئی۔ شدت پسندی کے الزامات کی زد میں آنیوالی تنظیموں اور شخصیات پر کڑی پابندی لگا دی ۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی بات مانی اور یہ سب پاکستان کی کامیاب سفارتکاری اور بہترین حکمت عملی تھی۔اسکی طرف سے پاکستان کو فروری تک مزید اقدامات کرنے کو کہا گیا ہے۔ یقیناًپاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کر لے گا بشرطیکہ اپوزیشن بھی ذاتیات سے بالا تر ہو کر قومی مفادات کو حرز جاں بنائے۔ مولانا ایسے لشکر تشکیل دیں گے تو پاکستان کا مؤقف کمزور ہو سکتا ہے۔ بلاول بار بار کہہ رہے تھے کہ کابینہ میں شدت پسندوںکے حامی بیٹھے ہیں۔ یہاں نواز شریف نے اداروں سے انتقام لینے کیلئے ممبئی حملوں کے بارے میں کہا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے گئے تھے۔ ممبئی حملہ کیس میں بھی میاںنواز شریف نے فرمایا تھا کہ کیوں فیصلہ نہیں ہو رہا۔ ایسے رویے حکومتی اقدامات پر پانی پھیر سکتے ہیں اور ریاست کیلئے ناقابلِ تلافی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔
پُر امن احتجاج کسی بھی شخص تنظیم اور سیاسی پارٹی کا جمہوری حق ہے۔ مولانا فضل الرحمن یہ حق استعمال کرنا چاہتے ہیں ، ضرور کریں لیکن لشکر کی تشکیل کی کیا ضروت ہے۔ اور مولانا پھر اداروں کو بھی کہہ رہے ہیں کہ کسی قسم کی مداخلت سے باز رہیں ورنہ لانگ مارچ کا رُخ ان کی طرف ہو جائیگا ۔ مولاناکا روئے سخن فوج کی طرف ہے ۔ مولانا کے اس قسم کے عزائم کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی مولانا کا کُھل کر ساتھ دینے سے گریز کررہی ہے۔ آج عمران خان کی حکومت اور پاک فوج ایک پیج پر ہیں لہٰذا حکومت مضبوط ہے۔ اسے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ، وہ دھرنے کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دے رہی، تاہم بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مولانا کے تحفظات دور کرنے کیلئے ان کو مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔ ایک بار تو مولانا اس پیشکش کو حقارت سے ٹھکرا چکے ہیں۔ تاہم ان کے چودھری شجاعت اور پرویز الہٰی جیسے دوست مولاناکو رویے میں نرمی لانے پر قائل کر رہے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کی قیادت کا وہ حصہ جو’’ ہم نہیں تو کوئی اور بھی کیوں ہو‘‘ کے فلسفے پر کار بند ہے۔وہ مولانا کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ انکے مقاصدمیں عمران خان سے کسی بھی صورت میں نجات حاصل کرنا ہے،اس ’’عظیم و مقدس‘‘ مقصد کیلئے زمام اقتدار بے شک سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل کر طالع آزماؤں کے پاس چلی جائے۔ مولانا کو بہر حال اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے مستقبل کا اندازہ ہو گیا ہے۔لہٰذا ان کا عزم و ارادہ اب صرف لانگ مارچ تک محدود ہو گیا ہے۔ دھرنے جیسے جان جوکھوں کے عمل سے وہ تائب ہو چکے ہیں، اگلے چند روز میں وہ لانگ مارچ سے بھی رجوع کر سکتے ہیں ۔ان کا لشکر انصارالاسلام بھی پابندیوں کی زد میں ہے،اسکی تشکیل اور ڈنڈوں سمیت تشہیر کا آخر کیا مقصد ہے۔ مولانا سے اسکی تشکیل پر بھی جواب دہی ہوسکتی ہے۔مولانا کے لانگ مارچ کے غلغلے میں کشمیر ایشو پس منظر میں جارہا ہے جس پر بھارت میں شادیانے بج رہے ہیں۔اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور اور بھارت اور لانگ مارچ کے سرخیلوں اور انکے حامیوں کا بیانیہ ایک ہوچکا ہے۔سنجیدہ حلقوں کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ مولانا کو دو فیصد ووٹ ملے جبکہ ان سے زیادہ ووٹ حاصل کرنیوالی پارٹیوں کی تعداد درجن بھر ہے۔معروضی حالات میں جب دشمن سر پُر غرور کیساتھ پاکستان کو للکار رہاہے لانگ مارچ اور دھرنے کے بجائے بھارت کے مذموم مقاصد خاک میں ملانے اور کشمیر ایشو کو پوری قوت سے ٹاک آف گلوبل بنانے کیلئے قومی اتحاد،یکجہتی اور یگانگت کی ضرورت ہے۔
علم الاعداد اور ستاروں کی روشنی میں حکومت کو لانگ مارچ سے کوئی خطرہ نہیں۔وہ مزید مستحکم ہورہی ہے۔مزید براں مولانا27 اکتوبر سے قبل پسپائی اختیار کرنے کے حوالے سے کوئی ڈرامائی فیصلہ کرتے نظر آتے ہیں ۔
بھارت کو منہ توڑ جواب: مولانا مارچ پر بضد
Oct 22, 2019