اخلاقی پستیوں میں دھنسا ہوا بھارت !

Oct 22, 2020

آج سے چند برس قبل تک کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ بھارت یوں اقوام عالم میں بے وُقت ہوکر رہ جائے گا کہ بھارت میں بسنے والی اس کی ایک ارب تیس کروڑ پر مشتمل آبادی خود کو جہنم کا باسی تصور کرنے لگے گی ۔ انصاف انتہا پسند ہندوبرہمنوں کے ہاتھ کا چابک بن کے رہ جائے گا اور قانون اعلیٰ ذات ہندوئوں کے گھر کی لونڈی،1947 میں آزادی ملنے کے بعد پاکستان اسلام اور مسلمان دشمنی میں بھارتی حکمران اور ان کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو نیست نابود کرنے کی کوششوں میں انسانی اقدار تک بھلا بیٹھے اورعالمی رائے عامہ کی نظروں میں  انسانیت دشمن قرار دے دیے گئے اپنی اس روش میں وہ اس تاریخی حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ اس خطے میں صدیوں سے بسنے والے ہندو سازشوں ، فتنہ سازیوں اور مکروفریب کے بل پر آپس ضرور لڑتے جھگڑتے رہے اور ایک دوسرے کے ریاستی جغرافیہ کو بھی آگے پیچھے کرتے رہے لیکن وہ اس طرح کے جنگجو کبھی نہیں رہے جو برصغیر کی حدود سے باہر نکلنے کا حوصلہ کرتے اور اگر کسی نے مغربی سرحد سے باہر نکلنے اور چانکیائی چالاکیوں کو بروئے کار لانے کی حماقت کی تو اسے بھاری قیمت چکانی پڑی۔اعلیٰ ذات کے یہ ہندو ذات پات میں بٹے ہوئے اور اپنے ہی ہم مذہب ہندوئوں کو اچھوت و ناپاک قرارد ے کر ان کے ساتھ صدیوں تک جس طرح کا بہیمانہ نفرت انگیز سلوک کرتے رہے اسے یادکر کے آج ہزاروں ہندو دانشور شرمندگی اور افسوس کا اظہا کرتے ہیں ۔ وہ پوچھتے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ جو ان عورت کو ستی قرارد ے کر اس کو شوہر کی چتا پر بناسنوار کر بٹھا دیا جائے اور اس کے بیٹوں کو چتا کو آگ لگانے کیلئے استعمال کیا جائے، یوں مذہب کی آڑ میں ایک بچے کو اپنی ماں جیسی ہستی کا قاتل بنادیا جائے یا اس سے بڑھ کر انسانی حرمت کو تذلیل کیا ہوگی کہ لڑکی کی پیدائش کو اپنی عزت و غیرت کی توہین قرار دے کر معصوم اور پھول جیسی بیٹوں کو پید اہوتے ہی موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے ۔ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے برصغیر کے ہندوئوں کو انسانیت سے روشناس کرایا ۔ انہیں جینے کا ڈھنگ سکھایا ۔ بھات کے متعصب برہمن ہندو دانشور اور خود کو لبرل ثابت کرنے کے خبط میں مبتلا ہمارے اپنے بعض دانشور جب برصغیر میں اسلام کے پھیلائو کو مسلمانوں کی طرف سے تلوار کے استعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو ہمارے لبرل دانشور بھول جاتے ہیں کہ اگر تلوار استعمال ہوتی تو آج بھار ت میں سارے مسلمان ہوتے ۔ وہ ہمارے صوفیا ء کرام کی ان خدمات کو بھی فراموش کر جاتے ہیں ۔ جنہوںنے برصغیر کے طول و غرض میں دین فطرت اسلام کو روشناس کرایا ، ہند و مردوں کو احساس  دلایا کہ بیٹی کتنی بڑی رحمت ہے ۔ بیوائوں کو چتا کی آگ میں جلنے سے بچایا ۔ انسان اور انسانیت کی قدر سکھائی  جبکہ متعصب ہندو اسلام کو تلوار سے پھیلایا گیا مذہب قرار کر اپنے ان تمام مقدس سورمائوں اور دیوتائوں کی توہین کرتے ہیں جن کا ذکر ہندوئوں کی دیومالائی کہانیوں پر مشتمل مقدس کتابوں میں ملتا ہے جورتھ پر سوار کر جنگ کیلئے نکلتے تو وہ تیرو تلوار نہیں بلکہ آبرو کے اشاروں پر دشمنوں کی صفوںمیں ماتم برپا کردیتے  وہ 12گھوڑوں والی رتھ پر سوار ہو کر زمین پر نہیں بلکہ فضائوں میں اڑا کرتے تھے اور اگر اس طرح کے سارے’’ مہابلی‘‘ مسلمانوں کی تلواروں سے ڈر کر بھیگی بلیاں بن گئے تھے ؟
تو پھر اس میں قصور مسلمانوں اور ان کی تلواروں کا نہیں بلکہ ہندو برہمنوں کی اس سوچ کا ہے جس کے تحت وہ آج کے جدید دور میں بھی اپنی جغرافیائی حدود میں ذات پات کی تقسیم پر مبنی افسانوی مذہب کو پھر سے رائج کرنے کے در پے ہیں ۔(جاری ہے)

مزیدخبریں