ابھی ہما ری یہ پہلی مہم کا میابی سے اختتا م پذیر ہوئی تھی کہ انا رکلی میں فردوس ما رکیٹ کی جانب سے اچانک ایک سا ئیکل سوار ضمیمہ اخبارات کا ڈھیر سا ئیکل کے کپڑے والے جھولے میں ڈالے ، ایک اخبار ہوا میں لہرا تے ہو ئے اپنی اونچی آواز میں یہ صدالگا تے ہوئے نمو دار ہوا ۔جنرل ضیاء کو کمرے میں بند کر دیا گیا،جنرل ضیاء کو کمرے میں بند کر دیا گیا۔یہ دھما کہ خیز خبر سن کر ہمارے سمیت وہاں موجود تمام لوگ ورطۂ حیرت میں ڈوبے ضمیمہ فروش کی جانب لپکے (یادرہے کہ ان دنوںاخبارات صرف صبح آتے تھے،شام کا کو ئی اخبار نہ تھا اور نہ ہی چینلز کا طوفان ابھی برپا ہوا تھا۔واحد ذریعہ نیوز Ptvتھااور اس پر بھی خبراپنے وقت پر ہی آتی تھی لہذا اس دور میںکسی ضمیمے کا آناکسی طوفانی خبر کا عندیہ ہوتا تھا۔ضمیمے کا معاوضہ 2روپے ہوتا تھا مگرموجودہ ضمیمہ تو بلیک میں 5روپے میں بھی ہا تھوں ہاتھ فروخت ہورہا تھا۔لو گ دھڑا دھڑ ضمیمہ خریدے جا رہے تھے۔حتی کہ جس نے دس کا نوٹ دیا وہ بقا یا لینے سے پہلے خبر کی تفصیلات میں محو ہو گیا۔اور بات تھی بھی کچھ ایسی ہی۔ذراسوچئے کہ وہ چیف ما رشل لا ایڈمنسٹریٹر جو ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول عوامی اور عا لمی لیڈر کو پھانسی چڑ ھا چکا ہو،جو بڑے بڑے سیا سی لیڈروں کو تنگ و تاریک جیلوں میں دھکیل چکا ہو،جو سرگرم سیاسی ورکروں کو شا ہی قلعہ لاہورکی گھٹن زدہ کوٹھڑیوں میںڈال چکا ہو،جوبھٹو کے جا ں نثاروں کوخطرناک مجرموں کا ٹا ئیٹل دے کر سرعام کوڑے مر وا چکا ہو۔ اسے کیو نکر اور کیسے کمرے میں بند کر دیا گیا؟ اس سے بڑاتجسس اور کیا سکتا تھا۔لہذا ہم جیسے پول کر کے پیسے اکٹھے کرکے فلم دیکھنے والوں نے بھی ایک عدد ضمیمہ لینے کا کڑوا گھونٹ بھر نے کا فیصلہ کر لیالیکن تب تک تما م ضمیمے ہا تھوں ہاتھ بک چکے تھے اور ضمیمہ بیچنے والا اپنا اخبار والا جھولا جھاڑ کر بڑی برق رفتاری سے اپنے سائیکل پر لادے نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ پتہ نہیں اسے کس بات کی جلدی تھی؟۔مگر اسکی اس جلدی کی ہمیں جلد ہی سمجھ آ گئی جب بہت ساری کلاسیکل گالیوں اور بے شمارلعنتوں نے اسکا پیچھا کیا۔ اس عجیب و غریب بل کھا تی صورتحال سے گومگو کی کیفیت سے دوچار ہم نئے نئے ؛کالجیئٹ؛ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھے اور قدرے کم غصہ ہوتے بلکہ شرمندگی والی ہنسی منہ پہ سجا نے والے شخص سے پو چھنے کی جسارت کی تو وہ حضرت کو ئی جواب دینے کی بجا ئے وہ اخبار ہمیںتھماتے ہوئے بولے۔اے لئو آ پے ای پڑھ لئو۔تسی کد ھرے محروم نہ رہ جانا اس خبر توں۔۔۔خبر کی تفصیل کچھ یوں تھی: سمہ سٹہ(نا مہ نگار)صدر پاکستان جنرل ضیا ء الحق جو کہ اس وقت پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈ منسٹر یٹر بھی ہیں،وہ انڈیا کے شہر جالندھر میں پیدا ہوے ۔انکا تعلق ایک انتہا ئی مذ ہبی گھرانے سے ہے ۔انکے والد صاحب ایک مسجد کے پیش اما م تھے ۔جنرل ضیاء نے اپنے بچپن کی یا دیں تازہ کرتے ہوے ایک جریدے کو انٹرویو دیتے ہوے بتایا کہ جب وہ چھوٹے سے تھے تو انکے والد نے ایک مرتبہ نما ز نہ پڑھنے کی پاداش میںانھیں کمرے میں بند کر دیا تھااور وہ کمرے کے اندھیرے سے گھبرا کر رونے لگے ،وہ کافی دیر روتے رہے پھر۔ ،،بس،یہاں تک خبر پڑھنے کے بعد ہما ری بریکیں لگ چکی تھیں۔ہما ری امیدیں دم توڑ چکی تھیںاور ہم جو کسی بہت بڑی خو شخبری کی آس لگائے بھاگے آئے تھے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔سوا ئے کھسیانی ہنسی کے ہما رے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ابھی ہم کوئی تبصر ہ کرنے کے قابل نہیں ہو ئے تھے کہ وہاں مو جود : متاثرین ضمیمہ:میں سے ایک شخص کے کمنٹس نے ہمیں اپنی جانب متو جہ کیا۔ انکے الفاظ کچھ یوں تھے :۔۔ جنرل ضیا کے والد نے اسے کمرے میں بند کر دیا۔ اور اس نے پوری قوم کو کمرے میں بند کر دیا ۔وہ جو اس وقت رویا آج پوری قوم کو رلا رہا ہے ،وہ اپنے والد کی دی گئی سزا کا بدلہ پوری قوم سے لے رہا ہے:،،یقین مانئیے اس کے یہ الفاظ سن کر وہ ہمیں عصر حاضر کا افلا طون لگا۔آج جب وہ الفاظ میرے کا نوں میں گو نجتے ہیں اور میں اپنے مادر وطن کے حالات پر نظر دوڑاتا ہوںکہ جنرل ضیاء کی ڈکٹیٹر شپ تو 1988میں انکی موت کے بعد ختم ہو گئی ۔ مگر کیا ہم اندھیرے کمرے سے نکل آئے ہیں؟کیا ہمارا رونا ہنسی میں تبدیل ہو چکا ہے؟کیاہم اپنے اخلاقی و فکری معیار کو بلند کر چکے ہیں؟اور کیا ہم بحیثیت قوم ایک درست سمت میں چل پڑے ہیں؟ان سب سوالات کے جوابات بہت بھیا نک ہیں۔ مگر اب اس قوم کے ہر فرد کو اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ اپنی سیا سی ذہنی غلامی سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ورنہ یاد رکھیں کبھی کوئی آسمانی طاقت کسی قوم کی حالت بدلنے نہیں آئی،ایسا کوئی معجزہ نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو گا ۔ (ختم شد)