مجھے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا زیادہ پتہ نہیں ہے۔ میرے بزرگ بتاتے ہیں کہ میں انگلی پکڑ کر چل سکتا تھا۔ بہرحال جنرل ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح کے الیکشن کے بارے میں اتنی معلومات ہیں کہ پاکستان کے مفادپرست‘ خودغرض اور اقتدار کا ساتھ (ایوب خان کا ساتھ) دینے والوں نے قائداعظم محمد علی جناح بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا تھا۔ جنرل ایوب خان کے خلاف زیڈ اے بھٹو پی پی پی کی تحریک پر اقتدار جنرل یحییٰ خان کو مل گیا۔ انہوں نے الیکشن کروائے جو تاریخ میں شائد واحد اور شفاف اورغیرجانبدار تھے۔ بہرحال مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کو اکثریت حاصل ہو گئی اور مغربی پاکستان میں پی پی پی کو اکثریت اور کچھ سیٹیں دوسری پارٹیوں کو ملیں اور اقتدار وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کا حق تھا‘ لیکن زیڈ اے بھٹو نے اس پر ملک دشمنی کے الزامات لگانے شروع کر دیئے اور یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ جو بھی بندہ مشرقی پاکستان گیا‘ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ مجبیب الرحمن نے اقتدار نہ ملنے پر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی اور مجیب الرحمن کی پارٹی کے لوگوں نے بغاوت کر دی جس پر انڈیا جوکہ پہلے ہی پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہا تھا ‘کھل کر مجیب الرحمن کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا اور اپنی آدھی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں جنہوں نے پاکستان آرمی کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ انڈین آرمی کو لوکل لوگوںکی حمایت حاصل تھی اور پاکستانی فوج کو بہت نقصان ہوا آرمی کو قید کر لیا گیا۔ ملک ٹوٹ گیا۔ باقی تاریخ کے اوراق میں ہر چیز‘ کہانیاں لکھی ہوئی ہیں۔ ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ اپنا کام دکھا گیا۔ پی پی پی کی حکومت مغربی پاکستان پر قائم ہو گئی۔ پی پی پی میں بہت اچھے اچھے لوگ تھے۔ چند سوشلزم کے حامی اور اس کے نظام سے خوش تھے۔ بھٹو مرحوم نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بڑے بڑے مقدمات بنائے۔ ان کی فیکٹریوں اور زمینوں پر حکومت نے قبضے کر لئے۔ ان اقدامات کی تفصیل بڑی لمبی ہے‘ لیکن بھٹو نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کیلئے کسی بھی اچھے اور شریف شہری کو جو پاکستان کا خیرخواہ اور پی پی پی کا مخالف تھا‘ اس کو زیر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا اور مقدمات قائم کروائے۔ بھٹو حکومت کے عوام پر ظلم و ستم اور ملک میں ناانصافیوں کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا اور جنرل ضیاء الحق نے تقریباً 11 سال حکومت اور ملک میں اسلامی نظام لانے کا نعرہ لگایا جس کی وجہ سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے اس کی حمایت شروع کی اور دوسری پارٹیوں کے لوگوں نے بھی ضیاء الحق کی حمایت شروع کر دی۔ حالات کو دیکھتے ہوئے جنرل (ر) ضیاء الحق نے ملک میں مجلس شوریٰ قائم کر دی جس نے پاکستانی عوام کے نمائندگان ایم این اے اور ایم پی اے کی طرح کام کرنا تھا۔ پرانی کھیپ میں مجلس شوریٰ کے ممبران بنائے گئے جن میں مذہبی اور سیاسی معزز لوگ شامل کئے گئے اور پھر دوسری کھیپ مجلس شوریٰ بنائی گئی۔ ان ممبران کو ترقیاتی فنڈز بھی ملنے شروع ہو گئے اور پھر حکومت نے عوام کی بھلائی کا نعرہ لگایا۔ میرے خیال میں غیرمنتخب لوگوں کو فنڈز دینے کی وجہ سے ملک میں کرپشن ہونی شروع ہو گئی۔ حکومت کو جنرل ضیاء الحق نے مضبوط کرنے کا یہ طریقہ نکالا کہ عوام کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ترقیاتی فنڈز جاری کئے جائیں جس پر کام شروع ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں پوری طرح کنٹرول سنبھال لیا اور ملک میں مجلس شوریٰ کا نعرہ کامیاب نہ ہو سکا۔ بہرحال پنجاب میں جنرل (ر) غلام جیلانی کو گورنر بنایا گیا۔ انہوں نے میاں نوازشریف کو اپنا فنانس منسٹر (وزیرخزانہ) بنایا۔ یہ میاںمحمد شریف مرحوم کی پہلی کامیابی تھی۔ میاں محمد شریف مرحوم والد محترم میاں نوازشریف سے میری پرانی واقفیت 1975-76ء سے تھی۔ میاں محمد شریف مرحوم کے تعلقات چودھری ظہورالٰہی شہید کے ساتھ بہت اچھے تھے۔ میں ان کے ساتھ ان کے آفس شملہ پہاڑی اتفاق میں جاتا رہتا تھا۔ میاں نوازشریف وزیرخزانہ پنجاب بن گئے اور ان کی سیاسی زندگی شروع ہو گئی اور میاں نوازشریف کو ایک دفعہ جنرل جیلانی نے چودھری شجاعت حسین صاحب سے کو ملایا اور چودھری صاحب کوکہا کہ میاں نوازشریف کو سیاست سکھائیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ چودھری شجاعت حسین صاحب میاں نوازشریف صاحب کو چودھری انور علی چیمہ سابقہ ایم این اے مرحوم کے پاس سرگودھا لیکر گئے تھے۔ بہرحال میاں نوازشریف نے اقتدار کی سیڑھیوں پر بڑی تیزی سے چڑھنا شروع کر دیا اور وقت گزرتا گیا۔ میاں نوازشریف جنرل ضیاء الحق کی آنکھ کا تارا۔ اعجازالحق کا بھائی بن گیا۔ غرضیکہ میاں محمد نوازشریف نے پنجاب بڑے بڑے سیاستدانوں کو‘ مذہبی رہنمائوں کو پیچھے چھوڑ کر فرنٹ لائن میں آگئے۔ جنرل ضیاء الحق نے الیکشنوں کا اعلان کر رکھا تھا۔ میاں محمد نوازشریف فنانس منسٹر سے وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے۔ یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ میاں نوازشریف کے پاس کچھ ایسا تھا کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق ہر ایک کو رام کر لیتے تھے۔ جب ملک میں غیرجماعتی الیکشن ہوئے جنرل ضیاء الحق نے خزانے کے منہ کھول دیئے اور اربوں کے ترقیاتی فنڈز جاری ہوئے۔ اس وقت ملک میں کرپشن‘ لوٹ مار شروع ہوئی۔کاغذوں میں منصوبے کمشن پر مکمل ہوئے۔
اس وقت کی اکثریت نے دل کھول کر کرپشن کی۔ ان حالات پر شاید کوئی کتاب لکھے۔ ملک میں‘ صوبوں میں کرپشن پہلے بھی ہوتی تھی‘ لیکن غیرجماعتی الیکشنوں نے ممبران کی خریدوفروخت کے ریکارڈ توڑ دیئے اور الیکشنوں میں کامیاب ہونے والوں کو اقتدار کی خواہش پیدا ہو گئی اور پھر اقتدار کی خواہش نے معاشرے کی تباہی اور نوجوان نسل کو غلط راہ پر چلانا شروع کر دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے محمد خان جونیجو مرحوم کو وزیراعظم بنایا۔ اس کو کسی سازش کے تحت برطرف کرکے گھر بھیج دیا اور پھر ملک میں پارٹیوں کی چپقلش شروع ہو گئی۔ موجودہ حالات سے بالکل مختلف سیاسی حالات تھے۔ (جاری)
تاریخ کے جھروکوں میں مفادات کی جنگ
Oct 22, 2020