پاکستان کے سنہری دنوں کا ذکر ہو رہا تھا ۔ ایک فلمی گیت کامصرع یاد آ رہا ہے ع :وہ دن جب یاد آتے ہیں کلیجہ منہ کو آتا ہے۔مجھے یہ شرَف حاصل ہے کہ جب بھی موقع ملتا میں اِشفاق احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہُوا کرتا تھا اور اکثر یہ ملاقاتیں داستان سرائے کے ڈرائنگ روم ہی میں ہُوا کرتی تھیں۔جہاں آپاں جی صرف اُس وقت تشریف لاتی تھیں جب مہمانوں میں خواتین بھی ہُوا کرتیںاور ایسا بھی کبھی کبھار ہی ہوتا۔ البتہ نوجوان طَلَبا اور طالبات اکثر زنان خانے اور ڈرائنگ روم میں سے رخصت ہوتے ضرور نظر آیا کرتے تھے۔مجھے یقین ہے وہ اب پاکستان کے باشعور جوان بن چکے ہوں گے اور آپاں جی اور اشفاق احمد صاحب سے ملاقاتوں کے ثمرات کے بیج پاکستان کی دانش کھیتی میں بو رہے ہوں گے!بانو آپا اور اِشفاق احمد خاں جیسے اک دوجے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ان کی جوڑی دیکھ کر یقین آ جاتا تھا کہ جوڑے آسمانوں پر ہی بنتے ہیں۔حالاں کہ ہم پیشہ ہمیشہ حاسد اگر نہیں تو رشک کے مریض ضرور ہوتے ہیں مگر یہ دونوں ہم پیشہ ایک دوسرے کی تعریف بھی کرتے تھے ۔ آپاں جی تو شرما کر تعریف کرتیں مگر خاں صاحب بڑے دبنگ لہجے میں بانو قدسیہ کے لکھے کی تعریف کیا کرتے تھے ۔ بانو قدسیہ کے ناول ’’راجہ گِدھ‘‘ کی دل کھول کر تعریف میں نے اشفاق صاحب سے کراچی ائیر پورٹ پر سنی تھی جب میں اُن دونوں کو لاہور کے لیے جہاز پر سوار کرانے ہوائی اڈے پر لے کر گیا تھا۔دونوں کے ایک دوسرے کی تعریف کرنے کا انداز کمال کا تھا۔ اس سلسلے میں ایک اہم واقعہ جو یاد آ رہا ہے وہ 1997 میں اِشفاق صاحب کے کھیل ’’قائدِ اعظم ‘‘ کے نشر ہونے کا ہے۔ڈھائی گھنٹے کے دورانیے کا یہ کھیل، جس میں جناح صاحب کی تمام دستیاب فلمیں استعمال کی گئی تھیں اپنی نوعیت کا واحد کھیل ہے اور آج کل پی ٹی وی کے نہاں خانوں میں دفن ہے۔ پی ٹی وی کے محکمۂ آثارِ قدیمہ سے درخواست ہے کہ اشفاق احمد صاحب اور جناح صاحب کے اس قوم پر اتنے احسانات ضرور ہیں کہ اُس شاہکار کھیل کو آرکائیو کے گرد آلود تہہ خانوں میں سے نکال کر جھاڑ پونچھ کر کے جمالیاتی دفینوں سے محروم اس قوم کو سال کے سال ہی سہی دکھا دیا جائے! ۔۔۔۔۔خیر ۔ تو ہُوا یہ کہ 25 دسمبر رات بارہ بجے کے بعد جب یہ کھیل نشر ہو چکا تو میں نے اشفاق صاحب کے ہاں فون کیا ۔ فطری طور پر میں اُن کے تاثرات جاننا چاہتا تھا۔ فون بانو آپا نے اُٹھایا اور میرے سلام کا جواب دینے کے بعد آپاں جی نے کئی منٹ تک مجھ کمترین کی تعریف و توصیف یہ کہہ کہہ کر کی ِ ،’’بختیار اس کھیل میں رائٹر کا کوئی کمال نہیں ہے تم نے بے مثال کام کیا ہے ۔‘‘ ا ور کئی بار اسی نوعیت کے جملے کہہ کر میرا دماغ زمین سے لگا دیا تو اِشفاق صاحب نے آپاں جی سے فون لیا اور فرمایا،’’اوئے یار اس کی باتوں میں نہ آنا یہ تو مجھ سے جلتی ہے۔ دراصل اسے کبھی اچھا پروڈیوسر ملا ہی نہیں۔۔۔۔‘‘یوں میں ایک ناچیز کافی بلند رُتبے پر فائز ہو گیا۔ اگر کوئی کام کا جاننے والاآپ کے کا م کی تعریف کرے تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئیے کہ حقیقی تعریف وہی کر سکتا ہے جو خود پیشہ ور ہو۔ میں بہت کم مایہ ہوں مگر آپاں جی آپ نے مجھے رئیس کر دیا تھا۔ آپ کا شکریہ۔ مجھے وہ مٹھائی بھی یاد ہے جو آپاں جی آپ نے اشفاق صاحب کی علالت کے دنوں میں اُن کی طبیعت سنبھلنے پر کھلائی تھی۔ اُس موقع پر میرا ماموں زاد سجّاد احمد میرے ساتھ تھا جسے میں ان عظیم ہستیوں سے ملانے ہسپتال ساتھ لے کر آیا تھا۔ سجّاد آج بھی اُس ملاقات کو یاد کر کے فخر کا اظہار کرتا ہے۔جہاں میں اپنی تعریف و توصیف کے ڈونگرے برسا رہا ہوں لازم ہے کہ اپنی کم مائیگیوں کا بھی اظہار و اعتراف کروں کہ بڑوں سے ہی انسان سیکھتا ہے اور اپنی زندگی سنوارتا ہے۔جس روز آپاں جی اپنے کھیل’’ اہلِ کرم‘‘ کی ریہرسل دیکھنے تشریف لائی تھیں توکھیل کے مسودے میں ایک مقام پر لفظ ایزل آیا۔ سچی بات ہے مجھے ایزل کاصحیح تلفظ معلوم نہ تھا تو میں اُس لفظ پر اٹک گیا۔ ظاہر ہے آپاں جی بھانپ گئیں کہ یہاں میرا ہاتھ تنگ ہے۔انہوں نے قدرے توقف کیا اور پھر لفظ (easel )کو pronounce کرکے میرے لیے آسانی فراہم کر دی۔ آپ کو یاد ہو گا اشعاق صاحب کی آسانیاں فراہم کرنے کی دُعا ہُوا کرتی تھی جسے وہ اپنے ہر پرگرام میں مانگا کرتے تھے۔اشفاق صاحب کے ساتھ بعض اوقات میں لبرٹی بھی لے لیا کرتا تھا۔ ایک روز میں اُن سے ملنے داستان سرائے پہنچا تو اشفاق صاحب ایک لفافہ گیر تجزیہ کار؍ صحافی کو ڈرائنگ روم کے دروازے پر رخصت کر رہے تھے۔مجھے اُس شخص کی شکل و عقل پسند نہیں تھی۔میں نے قدرے ناپسندیدگی سے اِشفاق صاحب سے شکایت کی کہ آپ اس قماش کے لوگون سے بھی راہ و رسم رکھتے ہیں؟ اشفاق صاحب نے اُس وقت تو مجھے ٹال دیا تاہم مجھے اُن کا فرمودہ یاد ہے۔ فرمایا،’’جب سے لکُم دینُکُم ولِیَ دین، کا مفہوم سمجھ میں آیا ہے میں نے لوگوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔‘‘ ایک بار آپاں جی اور اِشفاق صاحب دونو اکٹھے تھے تودونوں نے تقریباً بہ یک وقت فرمایا تھا کہ یہ جو افسانوں میں عشق محبت کی داستانیں ہم لکھا کرتے تھے وہ ہم نے لکھنا چھوڑ دی ہیں۔اب ہم کسی اور سمت میں سفر کر رہے ہیں۔اگر بانو آپاں جی کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ کا ذکر نہ کیا جائے تو آپاں جی پر مضمون نامکمل رہے گا۔ اس ناول کا سارا تانا بانا اس کے عنوان میں پوشیدہ ہے۔ آپاں جی نے اس نام میں ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کی ہے۔ آج جو حال ہمارا ہے اُسے گدھ سے ہی مشابہت دی جا سکتی ہے۔ گدھ صرف مُردار کھاتا ہے، ہمارا پورامعاشرہ کیا کر رہا ہے؟ مُردار ہی تو کھا رہا ہے۔ اگر ہم رشوت کھاتے ہیں تو وہ کیا ہے مُردار ہی تو ہے، اگر ہم خیانت کر رہے ہیں، ذخیرہ اندوزی کر رہے ہیں غبن کرتے ہیں، کسی کا حق مارتے ہیں، دھوکہ دہی ، لُوٹ کھسوٹ کرتے ہیں ، یتیم اور بیوہ کا مال ہڑپ کرتے ہیں،عزتیں لوٹتے ہیں، ملک سے غدّاریاں کرتے ہیں،ملکی اور غیرملکی سودوں میںکمشنیں کھاتے ہیں، ٹھیکوں میں سے مال بناتے ہیں، اپنوں پرائیوں کو نفسیاتی ز ک پہنچاتے ہیں یہ سب کیا ہے۔ کیا ہم گدھ نہیں ہیں؟ ’’راجہ گدھ‘‘ کے بیشتر کردار کم و بیش گدھ سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ کردار نفسیاتی مریض بنتے جاتے ہیں۔حتی ٰکہ ناول کی ہیروئین بھی بِالآخر نفسیاتی مریضہ بن جاتی ہے اور ہیرو بھی۔ہم کیا کریں آپاں جی ہم مجبور ہیں کہ معاشرے کے چند بے پنا ہ دولت مند گِدھوں کے آگے ڈال دیئے گئے ہیں ۔اُن دولتمندوں کے آگے جنہیں یہ احساس ہی نہیں کہ ہم مُردار نہیں جیتے جاگتے انسان ہیں۔مگر کیا کریں ہماری حکومتوں کو احساس ہی نہیں کہ غریب اور غیرت مند پاکستانیوں کے ساتھ یہ گَدھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ آج پاکستان کا ہر مظلوم یہ سوچ رہا ہے کہ کب وہ وقت آئے گا جب ہماری حکومت مظلوموں کو ان گدھوں کے قبضے سے چھڑائے گی اور کب دن پھریں حمام کے۔ویسے عالم یہ ہے کہ پوری قوم(اگر یہ قوم ہے تو) انتہائی مایوسی کا شکار ہے اور قوموںکو مایوسیوں کی دلدل سے نکالنا ہوشمند اور باشعور حکوممتوں کا کام ہوتا ہے۔ ابھی تک اس موجودہ حکومت سے آس کی ڈوری بندھی تو ہے مگر بہت ہی باریک اور کچے تار سے بندھی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ آس کا یہ تار مضبوط کرے اس وقت مہنگائی کے عفریت کے غلبے اور مجرموں کو سزائیں نہ ملنے کی وجہ سے یہ تار ٹوٹنے کو ہے۔حکومت سے تو پی ٹی وی ہی صحیح ڈگر پر نہیں آ سکا تو دیگر اداروں کا کیا حال ہو گا۔ افسوس ہمارے تقریباً سبھی دانشور اب ہم میں نہیں رہے اور آج اداروں کے نوساختہ، نوزائیدہ اور اناڑی مدارالمہام اور کرتا دھرتا رہے سہے بزرگوں اور دانشوروں کی شکل بھی دیکھنے کے روا دار نہیں وہ بزور یہ کہتے ہیں کہ آج کے بچوں سے یہ بزرگ سیکھیں کہ آج دانش گاہوں کو کیسے چلانا ہے۔ ہزاروں لاکھوں برسوں سے تو بزرگ سکھاتے تھے کہ کیسے جینا برتنا چاہئیے، آج زمانے کو ریورس گیئر میں ڈال دیا گیا ہے ۔فا اعتبرو یا اولی الابصار۔آج قحط الرجال نہیں قحط الشیوخ کا دور ہے۔ایک ایک کرکے یہ بزرگ رخصت ہو رہے ہیں۔ وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب اشفاق صاحب کو اُن کی آخری آرام گاہ میں پہنچانے کے بعد آپاں جی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں نے عرض کیا تھا ’’آپاں جی ہم اس دور کے آخری دانشور کو آسودۂ خاک کر کے آ رہے ہیں۔‘‘ اور آپ نے فرمایا تھا ’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو‘‘ ۔ آپاں جی ہم آپ کو بہت یاد کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے آپ دونوں وہ شجر ہیں جو ہر کسی کو اپنے سائے میں جگہ دیتے ہیں اور ہم سب میں آسانیاں بانٹتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ دونوںکو آسانیوں سے نہال کردے اور آپ کے درجات اور بھی بلند فرمائے آمین!