ایک بار پھر ملک دشمن عناصر سکیورٹی فورسز کی پے درپے کامیابیوں سے خائف ہو کر انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ بلوچستان اور وزیرستان اس وقت دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ یہاں دہشت گردی کیلئے فنڈنگ اور اسلحہ بھارت کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ راستہ افغانستان سے مل جاتا ہے۔ کچھ دہشت گرد ایرانی بلوچستان سے بھی وارداتوں کیلئے پاکستان داخل ہوتے ہیں۔ افغانستان سے انہیں بلوچستان اور وزیر ستان میں داخلے کیلئے بے شمار مواقع اور راستے دستیاب ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی دو بنیادوں پر ہوتی ہے اول مسلکی دوئم قوم پرستی یا علیحدگی پسند گمراہ عناصر کی طرف سے۔ وزیرستان میں البتہ مسلکی بنیادوں پر کم ہی ایسا کیا جاتا ہے۔ تاہم خیبر پی کے دیگر علاقوں میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ وزیرستان میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی سب سے بڑی وجہ وہاں سکیورٹی فورسز کی دہشت گردوں کیخلاف کامیاب کارروائیاں ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان ہو یا داعش اور القاعدہ کے مراکز ان سب کا قلع قمع کرنے میں مسلح افواج نے جس جانفشانی سے کام کیا قربانیاں دیں وہ آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں قانون کی رٹ بحال ہوئی اور پاکستان حکومت کو کام کرنے کا موقع ملا جس کی بدولت وہاں کی سیاسی سماجی ثقافتی اور تعلیمی زندگی میں انقلاب آ رہا ہے وہاں ترقی کی راہیں کھل رہی ہیں جو ظاہر ہے پاکستان دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ اب وہاں بچے کھچے دہشت گردوں کو جنہیں وہاں انکے چھپے سہولت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ دہشت گردی کی وارداتوں کا موقع مل رہا ہے۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد یہ سلسلہ مزید بڑھ سکتا ہے کیونکہ افغان طالبان کی بہرحال نرم حمایت انہی دہشت گردوں کے ساتھ ہے جو اسلام کے نام پر عوام کو گمراہ کر کے دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں جبکہ انہیں بھارت سے بھرپور مالی تعاون بھی حاصل ہے۔ افغان طالبان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جن ہزاروں شدت پسندوں کو جیلوں سے رہا کیا وہ سب رہائی کے بعد بھاگ کر اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف جا چکے ہیں۔ انہیں دوبارہ دام میں لانا افغان طالبان کے لیے ممکن نہیں اسی لیے عالمی سطح پر بھی شور ہو رہا ہے۔ ایران اور پاکستان کے علاوہ چین اور روس بھی ان دہشت گردوں کی رہائی سے پریشان ہیں جو افغانستان کے دور دراز علاقوں میں جمع ہو ر ہے ہیں۔ کچھ بھاگ کر پاکستان بھی آنے کی کوشش میں ہوں گے کچھ آ چکے ہوں گے۔ طالبان حکومت کے قیام کے بعد شمالی و جنوبی وزیر ستان کی تو بات چھوڑ سوات اور دیگر علاقوں میں بھی پاکستانی طالبان کے رہنما اپنے حفاظتی دستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے لگے ہیں جو بذات خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو ان کے آئندہ عزائم کو آشکارا کر رہا ہے۔ دوسری طرف انہوں نے حفاظتی فورسز پر حملے تیز کر دئیے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اچھے طالبان اور برے طالبان کی تفریق کے بیان نے بھی معاملات کو گھمبیر بنا دیا ہے۔
پاکستانی عوام کی اکثریت شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمے پر متفق ہیں سوائے چندمذہبی جماعتوں کے جو ان شدت پسندوں کے ہمنوا ہیں۔ بہرحال اب شمالی وزیرستان میں پے درپے دہشت گردی کی وارداتوں کے سدباب کیلئے اچھے یا برے کی تفریق سے ہٹ کر سکیورٹی فورسز کو کارروائی کرنا ہو گی۔ دہشت گرد کوئی بھی ہو نرمی کا مستحق نہیں۔ کسی کو من مرضی کرتے ہوئے عوام کا خون بہانے قومی دفاعی اداروں کونشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ قاتلوں سے حساب لینا ہو گا۔ دہشت گردی کی خفیہ پناہ گاہوں اور انکے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانا ہو گا۔
بلوچستان میں مٹھی بھر قوم پرست جماعتوں نے گمراہ کر کے نوجوانوں کو ہتھیار تھما دئیے ہیں جن کی بھارت میں تربیت بھی ہوتی رہی ہے۔ یہ بھی سکیورٹی فورسز پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ یہاں البتہ قوم پرست تحریک کا زور توڑنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو علیحدگی پسند تنظیموں کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ کر کے حالات کنٹرول کئے جا سکتے ہیں۔ جس طرح 1972ء میں باغی نوجوانوں کو پہاڑوں سے واپس بلا کر قومی دھارے میں شامل کیا گیا تھا اسی طرح اب ان نوجوانوں کو جو ناراض ہیں منا کر واپس لایا جا سکتا ہے۔ وہاں روزگار ، انصاف اور تعلیم عام کر کے انہیں پولیس اور فوج میں ملازمتیں دے کر ترقیاتی کام کروا کر سڑکیں بنوا کر خوشحالی کی راہ دکھائی جا سکتی ہے جو مہنگا سودا نہیں ، ہاں البتہ یہاں بھی مذہبی دہشت گردی کو کنٹرول کرنا ضروری ہے ورنہ چمن سے لے کر قلعہ سیف اللہ تک افغان طالبان کے جھنڈے اٹھائے پھرنے والے مسلح گروپ کسی بھی وقت مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ باتیں سرکاری حکام سے پوشیدہ نہیں۔ وہ سب جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔ بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں مذہبی انتہا پسندی کو قابو میں لانا ہو گا جبکہ بلوچ بیلٹ میں گمراہ قوم پرستوں کو قومی دھارے میں شامل کر کے ہی ہم دہشت گردی کی وارداتوں پر قابو پا سکتے ہیں۔