پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی سرحد پر ایک ایسا دشمن بیٹھا ہواہے جو مکار بھی ہے اور عیا ر بھی۔ جس نے روز اوّل سے اس کے وجود کو تسلیم نہیں کیا اور جو ابتداء ہی سے اس کے خلاف ہر قسم کے حربے آزماتا رہتا ہے۔ اس کی ساری جنگی تیاری ہمیشہ سے ہی پاکستان کے خلاف رہی ہے ۔ بھارت ہر قسم کے روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت اور تعداد بھی بڑھاتا رہااور آخر کا ر اس نے گیارہ ور تیرہ مئی 1998کوپوکھران II کے نام سے اپنے ایٹمی دھماکے کیے اور اس کے ساتھ ہی اس کا لہجہ پاکستان کے لیے دھمکی آمیز ہوگیا۔ جس کا جواب دینے کے لیے پاکستانی عوام بے چین ہوگئی اور آخر کار حکومت نے بھارت کو مناسب اور سخت جواب دینے کا فیصلہ کر ہی لیا اور 28مئی 1998کو چاغی بلوچستان کے پہاڑوں میں پانچ ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف بھارت کو جواب دیا بلکہ دنیا کو بھی یہ پیغام دیا کہ ہم ترنوالہ نہیں ۔یہ دھماکے کر کے پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا اور اس سب کچھ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھے۔ غیر ملکی میڈیا نے ان کی وفات پر انہیںبجا طور پر پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کا باپ لکھا۔ دراصل یہ ڈاکٹر قدیر خان ہی تھے جنہوں نے اپنے اوپر مغرب اور دشمنوں کے ہر قسم کے الزامات برداشت کیے لیکن اپنے عزم و ارادے میں خلل نہ آنے دیا۔ شاید بانیان پاکستان کے بعدوہ عوام کے لیے واحدغیر متنازعہ شخص تھے جن کے لیے پاکستان کے ہر صوبے ہر علاقے ہر شہر ہر گاؤں میںصرف اور صرف محبت اور احترام کے جذبات پائے جاتے تھے۔ کچھ لوگ صرف پاکستانی ہی نہیں بلکہ سرتا پاپاکستان ہوتے ہیںاور ڈاکٹرعبدالقدیر خان انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔آج جب وہ ہم میں نہیں رہے اور دس اکتوبر 2021 کو ہم سے جداہوگئے تو ہر پاکستانی غمگین ہے اور ہر زبان یہ اعتراف کر رہی ہے کہ وہ درحقیقت محسن پاکستان تھے ورنہ 28 مئی 1998کے بعدکئی ایسے مواقع آئے کہ لگتا تھا کی دشمن نے اب حملہ کیا کہ اب کیالیکن ایک ایٹم بم کی ہمارے پاس موجودگی نے ہمیشہ اس کے ارادوں کوخاک میں ملایا۔ پاکستان کا ایٹم بم دنیا کے لیے ایک ایسا خوف ہے جو ہمیں محفوظ رکھے ہوئے ہے اور یہی ایٹم بم وہ نشانی ہے جو ڈاکٹرقدیر خان کو ہمیشہ ہمارے دلوں اور تاریخ کے ا وراق پر زندہ رکھے گی۔ وہ درحقیقت صبح کا وہ ستارہ تھے جو رات کے اختتام اور نئی صبح کی نوید لاکر ہی غروب ہوتا ہے۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ’’سبزہ نورستہ‘‘ اس گھر کی نگہبانی کرے
(نغمہ حبیب، لاہور)