پاکستان کہنے کو تو ایک زرعی ملک ہے لیکن یکے بعد دیگرے بننے والی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے باعث آج حالات یہ ہیں کہ ہمیں گندم جیسی بنیادی ضرورت کی جنس بھی درآمد کرنا پڑتی ہے۔ ان دنوں صورتحال وفاق اور دو صوبوں یعنی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مابین سیاسی رسہ کشی کی وجہ سے مزید بگڑ رہی ہے۔ مذکورہ دونوں صوبے اپنے ہاں گندم کی قلت کی بات کررہے ہیں لیکن وفاقی حکومت کے اعداد و شمار الگ ہی کہانی بیان کررہے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق گندم کی آئندہ فصل تک طلب کے مطابق ذخائر موجود ہیں۔ ہم مصنوعی قلت پیدا کرنے دیں گے نہ کسی صوبے کو ملک کا قیمتی زرمبادلہ مہنگی گندم خریدنے پر خرچ کرنے دیں گے۔ جمعرات کو اپنی زیر صدارت نیشنل فلڈ ریسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹرمیں منعقدہ جائزہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت عالمی منڈی سے سستے نرخوں پر گندم کی در آمد کرکے صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق فراہمی یقینی بنائے گی۔ انہوںنے خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اعلیٰ معیار کے بیج کی تقسیم کے وفاقی حکومت کے پروگرام میں شامل ہوں اور اسے سیاسی مسئلہ نہ بنائیں، پاکستان ہم سب کا سانجھا ہے،ذاتی و سیاسی پسند اور ناپسند اور مفادات سے بالا ترہو کر سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے کام کیاجائے، وفاقی حکومت نجی شعبے کو ہرگز گندم درآمد کرنے کی اجازت نہیں دے گی، اس مشکل صورتحال میں کسی کو ناجائز منافع خوری کرنے اور عوام پر بوجھ ڈالنے نہیں دیں گے۔ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے، لہٰذا اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی نذر نہیں کیا جانا چاہیے۔ وفاق کو اس سلسلے میں صوبوں سے تمام پہلو سامنے رکھ کر مشاورت کر کے کوئی ایسا فیصلہ کرنا چاہیے جس پر سب متفق ہوں۔ یہ معاملہ ریاست اور عوام کی بنیادی ضروریات سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس موقع پر سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر یہ سوچنا چاہیے کہ عوام کی بھلائی اور ملک کا استحکام کن اقدامات سے وابستہ ہے اور ان کے ملکی معیشت پر کیا دیرپا اثرات ہوں گے۔
گندم کی قلت سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے
Oct 22, 2022