چیف الیکشن کمشنر مسٹر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پاکستان الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کیخلاف پانچ حکومتی ارکان کی جانب سے دائر کئے گئے توشہ خانہ ریفرنس کا متفقہ طور پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے انہیں اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا اور ’’کرپٹ پریکٹسنر‘‘ کے جرم میں ان کیخلاف قانونی کارروائی بھی عمل میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کی رو سے عمران خان کی نہ صرف قومی اسمبلی کی پہلے سے موجود رکنیت ختم ہو گئی ہے بلکہ حالیہ ضمنی انتخابات میں انکی جیتی گئی چھ نشستیں بھی تکنیکی بنیادوں پر ختم ہو گئی ہیں کیونکہ توشہ خانہ ریفرنس میں 19 ستمبر کے محفوظ شدہ فیصلہ کے صادر ہونے سے وہ انتخاب لڑنے کے اہل ہی نہیں رہے۔ اس طرح اب قومی اسمبلی کی مجموعی سات نشستوں کا دوبارہ انتخاب ہوگا۔
عمران خان کیخلاف یہ ریفرنس حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے پانچ ارکان قومی اسمبلی محسن شاہنواز رانجھا‘ آغار رفیع اللہ‘ آغا حسن بلوچ‘ صلاح الدین ایوبی‘ علی گوہر اور سعد وسیم شیخ کے دستخطوں کے ساتھ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو بھجوایا گیا تھا جنہوں نے عمران خان کی نااہلیت کیلئے یہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا۔ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے بطور وزیراعظم توشہ خانہ سے حاصل ہونیوالے تحائف فروخت کرکے جو آمدنی حاصل کی اسے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔ عمران خان نے اس ریفرنس میں الیکشن کمیشن کے روبرو تحریری جواب داخل کرایا جس کے مطابق اگست 2018ء سے 31 دسمبر 2021ء تک انہیں اور انکی اہلیہ کو مجموعی 58 غیرملکی تحائف ملے جو زیادہ تر گلدان‘ میزپوش‘ آرائشی سامان‘ دیوار کی آرائش کے سامان‘ چھوٹے قالین‘ بٹوے‘ پرفیوم‘ تسبیح‘ خطاطی فریم‘ پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی‘ قلم‘ کفلنگز‘ انگوٹھی‘ بریسلیٹ‘ لاکٹس کے تحفے بھی شامل تھے۔ عمران خان کے بقول ان تحائف میں 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار سے زائد تھی۔ ان میں چار رولیکس گھڑیاں بھی شامل تھیں۔ انہوں نے اپنے جواب میں اعتراف کیا کہ انہوں نے بطور وزیراعظم اپنے دور میں چار تحائف فروخت کئے۔ یہ تحائف انہوں نے دو کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد توشہ خانہ سے حاصل کئے اور تقریباً پانچ کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت کئے۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد اسحاق کے بقول عمران خان نے اپنے جواب میں تحائف کا حصول بھی تسلیم کیا اور یہ بھی تسلیم کیا کہ انہوں نے تحائف اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کئے چنانچہ عمران خان حلفیہ بیان پر جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عمران خان کے وکلاء کی جانب سے الیکشن کمیشن کے روبرو موقف اختیار کیا گیا کہ یہ ایک سیاسی کیس ہے جبکہ الیکشن کمیشن کو اختیار نہیں کہ وہ ارکان کی ایمانداری کا تعین کر سکے۔ انکے بقول سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت عدالت کی نہیں جبکہ منی ٹریل بھی الیکشن کمیشن کا نہیں ایف بی آر کا کام ہے۔
الیکشن کمیشن چونکہ حقائق چھپانے کی بنیاد پر آئین کی دفعہ 62ون ایف کے تحت پہلے بھی قومی اسمبلی کے رکن فیصل وائوڈا کو نااہل قرار دے چکا ہے جس کیخلاف اپیل اس وقت سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے اس لئے الیکشن کمیشن کے پاس عدالتی اختیار ہونے یا نہ ہونے کا سپریم کورٹ نے ہی تعین کرنا ہے تاہم جس جرم میں عمران خان کو نااہلیت کی سزا ملی ہے اور اس جرم کی بنیاد پر ان کیخلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے وہ جرم تو بادی النظر میں عمران خان سے سرزد ہوا ہے جس کی نااہلیت کی سزا بھی آئین کی متذکرہ دفعہ میں متعین ہے۔ پانامہ کیس میں یہی جرم میاں نوازشریف کا بھی ثابت ہوا جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے تحت نہ صرف وزارت عظمیٰ سے محروم ہونا پڑا بلکہ تاحیات نااہل قرار پا کر وہ اپنی پارٹی کی قیادت سے بھی محروم ہو گئے۔ پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کے صادق اور امین ہونے کا سوال اٹھا تو اب یہی سوال توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کیلئے بھی اٹھے گا چنانچہ عدل و انصاف کی بنیاد پر عمران خان کو بھی میاں نوازشریف جیسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔
بلاشبہ اس نوعیت کے کیسز کے سیاسی محرکات بھی ہوتے ہیں اس لئے اپنے سیاسی مخالفین کو سزائیں ملنے پر دادو تحسین کے ڈونگرے برساتے وقت یہ سوچ لیا جائے کہ کل کو انکے اپنے گلے میں بھی پھندا پڑ سکتا ہے تو ہماری سیاست میں بلیم گیم کا سلسلہ شاید ختم ہو جائے۔ عدلیہ کو تو بہرصورت آئین و قانون کے تقاضوں‘ پیش ہونیوالی ٹھوس شہادتوں‘ شواہد اور ان پر فریقین کے وکلاء کی جانب سے پیش کئے گئے دلائل کی بنیاد پر کسی کیس کا فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے جبکہ ماتحت عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیلٹ کورٹس اور دوسری اعلیٰ عدالتوں میں متاثرہ فریق یا فریقین کو نظرثانی کی درخواست اور اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ انصاف کی عملداری کا ایک پورا پراسس ہے مگر بدقسمتی سے کسی فیصلہ کے اپنے حق میں نہ ہونے کی صورت میں متعلقہ عدالتوں اور پورے نظام عدل پر چڑھائی کرنا ہمارے کلچر کا حصہ بن گیا ہے جس میں بالخصوص ہماری سیاسی قیادتیں لٹھ لے کر عدلیہ اور دوسرے اداروں کے پیچھے پڑی نظر آتی ہیں۔ بدقسمتی سے اس کلچر کو پی ٹی آئی کی سیاست میں زیادہ فروغ حاصل ہوا اور خود عمران خان اعلیٰ عدلیہ تک کو للکارے مارتے نظر آتے رہے ہیں جبکہ چیف الیکشن کمشنر کا نام لے کر پاکستان الیکشن کمیشن کی بے توقیری کرنے میں تو انہوں نے کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب توشہ خانہ ریفرنس کے فیصلہ کے بعد تو بالخصوص چیف الیکشن کمشنر کیخلاف پوری پی ٹی آئی کی جانب سے اودھم مچایا جارہا ہے اور انہیں ایسے ایسے الفاظ سے نوازا جا رہا ہے جنہیں ادا کرنے کا کوئی عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
توشہ خانہ کیس کے فیصلہ کے بعد گزشتہ روز سابق وزیر قانون و اطلاعات فواد چودھری اور عمران خان کے چیف آف سٹاف شہبازگل نے الیکشن کمیشن کے سامنے کھڑے ہو کر جس لب و لہجے میں چیف الیکشن کمشنر کو مخاطب کیا وہ بذات خود ایک ریاستی آئینی ادارے کی کھلم کھلا توہین کے زمرے میں آتا ہے جبکہ پی ٹی آئی قائدین اس فیصلے کیخلاف عوام کو سڑکوں پر نکل کر اودھم مچانے کی ترغیب دیتے بھی نظر آئے جو بادی النظر میں ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان پہلے ہی لانگ مارچ کا آغاز کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر پی ٹی آئی کی جانب سے سامنے آنیوالے جارحانہ ردعمل کی بنیاد پر تشدد‘ توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال ملک کو سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہوگی جس سے جمہوریت کا مردہ بھی خراب ہو سکتا ہے۔ بے شک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ روز دوبارہ دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ فوج سیاست میں کوئی کردار ادا نہیں کریگی تاہم کسی اندرونی خلفشار پر قابو پانے کیلئے فوج کو بھی سول حکومت کی معاونت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے ماضی کے تجربات کافی تلخ رہے ہیں اس لئے یہ ہماری قومی سیاسی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی محاذ آرائی میں تلخیاں اس حد تک نہ بڑھنے دیں کہ واپسی کا راستہ ہی بند ہو جائے۔ پی ٹی آئی کو عمران خان کی نااہلیت سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلہ پر اعتراض ہے تو وہ اسے عدلیہ کے مجاز فورم پر چیلنج کرے اور اس فیصلہ کی بنیاد پر تشدد و تخریب کاری کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرے۔ قومی سیاسی قائدین کیلئے بہرصورت یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ بلیم گیم کی سیاست میں پارٹی لیڈران یکے بعد دیگرے نااہل ہو کر قومی سیاست سے بے دخل ہوتے رہے تو باقی کون بچے گا جو جمہوریت کی عملداری و استحکام کیلئے کوئی مؤثر کردار ادا کر سکے۔
الیکشن کمیشن سے عمران خان کی نااہلیت اور پی ٹی آئی کی سیاسی خلفشار بڑھانے کی کوشش
Oct 22, 2022