معزز قارئین ! کل 23 اکتوبر کو ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ ( پی پی پی پی ) اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ (پی پی پی) کے اکابرین اور کارکنان قائد عوام ،وزیراعظم ذالفقار علی بھٹو (مرحوم) کی بیوہ اہلیہ بیگم نصرت بھٹو کی 11 ویں برسی عقیدت و احترام سے منائیں گے۔ بیگم نصرت بھٹو ، دُبئی میں علیل تھیں جہاں 23 اکتوبر 2011ء کو اُن کا انتقال ہُوا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ قبل ازیں 18 دسمبر 1987ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری صاحب سے شادی ہُوئی تھی۔ پرانے سیاستدانوں اور نئی نسل کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ’’ محترمہ بے نظیر بھٹو2 دسمبر 1988ء سے 6 اگست 1990ء تک اور19 اکتوبر 1993ء سے 5 نومبر 1996ء تک دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں لیکن اِس دَوران وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی والدہ محترمہ کو کسی خطاب ( Title) سے نہیں نوازا تھا۔
’’ پاکستان پیپلز پارٹی !‘‘
30 نومبر 1967ء کو ’’قائد ِ عوام ‘‘ ذوالفقار علی بھٹو کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے لاہور میں ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ قائم کی تھی اور جس کے جنابِ بھٹو بلا مقابلہ چیئرمین منتخب ہُوئے۔ ’’ بابائے سوشلزم‘‘ کہلانے والے شیخ محمد رشید ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کے سینئر وائس چیئرمین اور میاں محمود علی قصوری وائس چیئرمین تھے ۔ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کے یہ چار راہنما اصول تھے کہ ’’ اسلام ہمارا دین ہے ۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے ۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ‘‘۔جنابِ بھٹو تاحیات پارٹی کے چیئرمین رہے اور اُن کی پارٹی نے اپنے انتخابی نشان ’’تلوار‘‘ پر ہی دسمبر 1970 اور مارچ 1977ء میں دو بار عام انتخابات میں حصہ لِیا۔ اُس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انتخابی نشانات میں سے ’’ تلوار‘‘ کا انتخابی نشان حذف کردِیا گیا تھا۔ چنانچہ 2002ء کے عام انتخابات کے موقع پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی تھی۔اہم بات یہ ہے کہ ’’ بیگم نصرت بھٹو کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن جب بھٹو صاحب نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے مقدمے میں گرفتار ہُوئے تو اُنہوں نے بیگم نصرت بھٹو صاحبہ کو پارٹی کی ’’ چیئر پرسن ‘‘ مقرر کردِیا تھا اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو ’’ شریک چیئر پرسن‘‘ ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی میں پارٹی کے کسی بھی رُکن کو ، شریک چیئرپرسن کے عہدے پر فائز نہیں کِیا تھا۔
دسمبر 1993ء میں وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’ پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی ’’سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی‘‘ کے 33 ارکان کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کِیا (جس میں اُنہوں نے اپنی والدۂ ،چیئرپرسن پاکستان پیپلز پارٹی محترمہ نصرت بھٹو کو مدّعو نہیں کِیا تھا ) ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے سارے ارکان جنابِ ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے نامزد کردہ تھے۔ متذکرہ ہنگامی اجلاس میں بیگم نصرت بھٹو کو برطرف کر کے محترمہ بے نظیر بھٹو نے خود چیئر پرسن سنبھال لی تھی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ’’ اُس اجلاس کے اہم کردار جنابِ حسین حقانی تھے ۔ 12 دسمبر 1993ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔ ’’ حسین حقانی کی مہارت !‘‘ ۔ ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کی چیئرپرسن کی حیثیت سے محترمہ بے نظیر بھٹو ، ’’سوشلزم ہماری معیشت ہے ‘‘ کے بجائے قوم کو یہ نعرہ دِیا تھا کہ ’’ اسلامی مساوات ہماری معیشت ہے‘‘۔
محترمہ بے نظیر بھٹو دو بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہیں لیکن اُنہوں نے اپنی زندگی میں اپنے ’’ مجازی خدا ‘‘ (جنابِ آصف علی زرداری ) کو پارٹی میں کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا۔ 27 دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل ہُوا تو اُن کی ’’مبینّہ اور برآمدہ وصیت ‘‘ کے مطابق جنابِ زرداری نے اپنے 19 سالہ بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو‘‘ کا خطاب دے کر اُسے پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیااور اُس کی قیادت میں خُود ’’ شریک چیئرمین‘‘ منتخب ہوگئے۔ 18 جولائی 1985ء کو’’Nice‘‘ (فرانس) میں بے نظیر بھٹو کے بھائی شاہنواز بھٹو پراسرار طور پر جاں بحق ہُوئے اور 20 ستمبر 1996ء کوبے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دَور میں اُنکے دوسرے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کا قتل ہُوا۔ (وہ ایک الگ کیس ہے )۔ بیگم نصرت بھٹو کو اپنے دونوں بیٹوں کی موت کا بہت صدمہ تھا اور جب اُنکی وزیراعظم بیٹی نے اُن سے چیئرمین بھٹو کی سیاسی وراثت چھین کر خُود چیئرپرسن شِپ پر قبضہ کرلِیا تو، اُنہوں نے اپنی باقی زندگی خاموش رہ کر اور گُھٹ گُھٹ کر بسر کی۔
’’انتخابی نشان تلوار!‘‘
معزز قارئین ! عرصہ دراز ہُوا جنابِ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی یادگار ۔دو سیاسی جماعتیں میدانِ سیاست میں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) کے صدر جناب آصف علی زرداری ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ’’ پی پی پی ‘‘ کو ’’ تلوار ‘‘ (Sword)اور ’’پی پی پی پی‘‘ کو ’’تیر‘‘ (Arrow) کے انتخابی نشانات الاٹ کئے ہیں لیکن آصف زرداری اور بلاول بھٹو زردای کی طرف سے جاری کئے گئے "Ticket Holders" (امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی) کا انتخابی نشان صِرف ’’ تیر‘‘ (Arrow) ہی ہوگا۔
’’ وزیر خارجہ بلاول بھٹو !‘‘
معزز قارئین ! تلوار (Sword) کے انتخابی نشان والی جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی ‘‘ کے چیئرمین نواسۂ بھٹو بلاول بھٹو زرداری ہیں لیکن موصوف اپنے والد ِ محترم کی ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر رُکن قومی اسمبلی اور پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں لیکن، 23 اکتوبر کو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی یاد گار دونوں پارٹیوں کے قائدین اور ارکان ’’ مادرِ جمہوریت ‘‘ کی برسی منا ئیں گے تو اُن کا یہ نعرہ بھی ہوگا کہ …
’’ کل بھی بھٹو زندہ تھا ، آج بھی بھٹو زندہ ہے!‘‘
’مادرِجمہوریت ‘ بیگم نصرت بھٹو کی برسی
Oct 22, 2022