کسی کا دکھ اس وقت تک محسوس نہیں کیا جا سکتا جب تک دکھ سہنے والے کے احساسات اپنی ذات میں چبھن نہ پیدا کریں ، پورپی اقوام ِ عالم اور امریکہ بے حِسی کی عمیق پستیوں میں گرے ہوئے ہیں ، انہیں انسانی خاص کر مخالف مذہب کی اقوام کے دکھوں سے کوئی سرو کار نہیں ، اسلامو فوبیا میں ان کے احساس کی طنابیں ان کے مردہ ضمیر نے حنوط کر دی ہیں۔
آج سے 82 سال قبل 8 ، ستمبر 1941 ءمیں لینن گراڈ جو کہ اب سینٹ پیٹرز برگ کے نام سے جانا جاتا ہے اور سابقہ سویت یونین کا دوسرا بڑا شہر تھا ، جرمن فوج نے اس کا محاصرہ باقاعدہ ایک مذموم منصوبہ بندی سے کیا تھا ، نازی ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر لینن گراڈ شہر کو اسلحہ سے تباہ کرنے کے بجائے شہر کے رہائشیوں کو بھوک کی دردناک اذیت دے کر مارنا چاہتا تھا،لہذا نازیوں نے لینن گراڈ کا محاصرہ تقریباً نو سو دن تک کئے رکھا ،اس محاصرے کی وجہ سے باہر سے اشیاءخوردو نوش کی ترسیل شہر میں آنا بند ہو گئی ، ذخیرہ شدہ اشیاء اور خوراک کے ختم ہونے پر لینن گراڈ کے باسیوں نے ابال ابال کر چمڑا کھانا شروع کر دیا ، بھوک کی شدت نے لوگوں کو مجبور کر دیا اور انہوں نے کاغذ کو دیواروں پر چپکانے والی (لیٹی) سریش کو کھروچ کھروچ کر کھا لیا،اور پھر بھوکے عوام شہر میں بلیوں اور چوہوں کو کھانے اور انسان انسان کو کھانے پر مجبور ہوگئے،آدم خوری کے واقعات اور بھوک سے لینن گراڈ کے ایک ملین انسان بھوک اور شدید سردی سے مر گئے تھے۔
عہدِ رفتہ کی تلخ اور انسانیت سوز تاریخ کی نہ مٹنے والی یا د کوعہدِ حاضر میں روسی صدر ویلادیمیر پوٹن نے غزہ کے اسرائیلی محاسرے کو نازی دور کی شکل قرار دیتے ہوئے امریکہ پر تنقید کی کہ امریکہ کی طرف سے بھی غزہ پٹی کی ناکہ بندی کرنے کے لئے مطالبہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران لینن گراڈ کے محاصرے جیسا ہے،ان تلخ اور کرب ناک یادوں کے ساتھ پوٹن نے حماس کی کاروائی کو غلط قرارد یا اور اسرائیلی ظالمانہ طرز طریقہ کی جوابی کاروائی کی مذمت کی، جسے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی حقوق کے تحفظ کاسارا ملبہ ستر سال سے محکوم فلسطین کی زمین کے اصل وارثوں پر ڈال کر انہیں غلط قرار دے دیا اور غاصب، درندہ صفت اور نسل کش اسرائیل کی مذمت کر کے اس کے قبضے کو جائز قرار دے کر سرخرو ہو گئے۔
یہود ، ہنود اور نصاریٰ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ یہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے اور یہی مالکِ کائنات کا فرمان ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں لڑائی کو انسانی بنیادوں پر بند کرانے کے مطالبہ سے متعلق پیش کی گئی قرارداد کو امریکہ اور برطانیہ نے ویٹو کر دیا جب کہ چھ ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اور مخالفت میں چار ووٹ آئے، جب کہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ترجمان کے مطابق غزہ کی پٹی کا بڑا حصہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے ، ملبے تلے کتنی لاشیں دبی ہیں ان کا کچھ اندازہ نہیں۔ ترجمان نے آنے والے دنوں میں شہریوں کی اموات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے 14 ارکان کی ہلاکت کا بھی ذکر کیا۔ غزہ سے روزانہ جنگی قوانین اور عالمی انسانی قوانین کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات ہیں، اسکے علاوہ غزہ میں 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں ، جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان کو نظر نہیں آتا ، جنہوں نے قرارداد کو ویٹو کیا۔
غزہ کی امن کے حوالے سے صورتحال انتہائی کشیدہ اور تشویشناک ہے اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری عسکری کشیدگی سے خطے کے ممالک پریشان ہیں ، لیکن مظلوم غزہ کے باسیوں کے لئے کسی بھی قسم کا عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں سرِ دست غزہ کے محاصرے اور بمباری کے نتیجے میں اموات سے تعفن اٹھنے سے باقی ماندہ لوگوں کا دم گھٹ رہا ہے ، ملبے تلے دبے ہوئے افراد کے اہل خانہ کو کئی کئی گھنٹے شہری دفاع اور ہنگامی ٹیموں کا انتظار کرنا پڑتا ہے ،اس امید پر کہ شاید ان کے عزیز ملبے تلے سے زندہ سلامت نکل آئیں لیکن یہ امید بر نہیں آتی ، پھر آہ وبکا اور اشکوں کی بارش کو روکنے والاکوئی نہیں ملتا۔
لین گراڈ کا محاصرہ صرف نو سو دن رہا لیکن اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ 2006 ئ میں کیا تھا جسے آج 17 سال ہو چکے ہیں۔ لینن گراڈ کے محاصرے کے دوران شہر کے اندر اشیائ خوردو نوش کی ترسل روکی گئی تھی جب کہ غزہ کے محاصرے کے دوران خوراک ، پانی ، بجلی ،ادویات کی دستیابی کو مسدود کیا گیا، بموں کی بارش اس عرصہ میں جاری رہی ، یہاں تک کہ غزہ کے لئے عالمی امدادی کارروائیوں کو بھی اسرائیل نے متعدد بار حملوں اور جارحیتوں کا نشانہ بنایا، بین الاقوامی وفود اور امدادی کاروائیوں کو غزہ تک پہنچانے میں اسرائیل رکاوٹیں پیدا کرتا رہا ، مئی 2010ءمیں صیہونی فوج نے غزہ کی بحری حدود میں عالمی امدادی قافلے ” فریڈم فلوٹیلا“ کے ہمراہ غزہ کے امدادی سامان سے بھرے ترکی کے مرمرہ جہاز پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں متعدد ترک شہری ہلاک و زخمی ہو گئے تھے۔
صیہونی فوج نے کیمپ، مساجد ، ہسپتال اور رہائشی عمارتوں پر بمباری کرکے کوئی جگہ نہیں چھوڑی جہاں انسانی لاشے بکھرے ہوئے نظر نہ آئیں ، بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار اسلام دشمنوں کو سنائی نہیں دیتی اس کے بر عکس امریکی صدر نے اسرائیلی طیاروں کا نشانہ بننے والے ہسپتال کا ملبہ بھی فلسطینیوں پر ڈال دیا ، اور مزید جوبائیڈن کا سفاکانہ بیان کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ،انسانیت سوز ا نسانی حقوق کے علمبر دار نہتے غزہ کے بچوں کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں ، اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے اس سے اظہار یکجہتی امتِ مسلمہ کے لئے انتہائی لمحہءفکریہ ہے ، موجودہ غزہ کے حالات کے تناظر میں یہود و نصاریٰ متحد ہیں، حیف کہ مسلمان ستاون ملکوں کی فوج کے ساتھ بھی منتشر و غیر منظم ہیں۔ دراصل مشرقِ وسطیٰ میں مسائل کی جڑغیر ملکی یہودی ہیں ، جنہیں اسرائیل فلسطینیوں کی زمین پر جبراً قابض ہو کر آباد کر رہا ہے۔
٭....٭....٭