گیٹ نمبر 4 الٹا بھی کھلتا ہے‘ پھر کہیں گے ہمیں کیوں نکالا۔ شیخ رشید۔
گیٹ نمبر 4 سے ہٹائے جانے کے بعد بھی شیخ رشید کے دل سے آج تک اسی گیٹ پر جانے‘ وہاں کھڑے رہنے اور اذن باریابی کی خواہش مچل رہی ہے۔ پہلے کبھی کبھی دربان آکر مسکرا دیتا تو شیخ جی کی باچھیں کھل جاتیں اور وہ اسے اپنی خوش نصیبی گردانتے مگر آج کل وہ بات کہاں مولوی مدن جیسی۔ شیخ جی کا نصیب پھوٹا وہ بھی سوھنی کے گجراتی گھڑے کی طرح۔ باربار صدا لگانے کے باوجود اب
تیرے در تے آکے سجناں وے
اسی جھولی خالی لے چلے
شیخ جی کو گیٹ سے کوئی جواب یا مسکراہٹ نہیں مل رہی‘ جبھی تو فرما رہے ہیں کہ یہ گیٹ نمبر 4 الٹا بھی کھلتا ہے۔ اب ان سے زیادہ کون جانتا ہے‘ اس حقیقت کو جو فخریہ خود کو اس گیٹ کا پروردہ قرار دیتے ہیں۔ اس گیٹ کی یہ کرامت ہے کہ الٹا کھلے یا سیدھا‘ جس پر کھلے وہ خوش اور جس پر نہ کھلے وہ شیخ رشید اور انکے ممدوحین کی طرح آزردہ رہتا ہے۔ اشک بہاتا ہے۔ مگر یہ گیٹ ان پر وا کیسے ہو جو اسے اکھاڑنے اور جلانے کے در پے ہوں۔ یاد رہے دروازہ سب کو عزیز ہوتا ہے جو گھر کو باہر سے آنے والی بلاو¿ں سے محفوظ رکھتا ہے۔ ورنہ نجانے کون کون سے فتنے اور بلائیں گھر میں داخل ہو کر اسے اجاڑ دیتی ہیں۔ اب شیخ جی کہہ رہے ہیں کہ ارکان اسمبلی کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ کیا بات ہے بھائی‘ کسی ظالم کو بھی ان کا خیال نہیں آیا۔ اکلوتے ہی سہی‘ کم از کم انکی بولی بھی لگا کر انہیں بتا دیتے کہ کیا خیال ہے۔ کم از کم شیخ جی حلفاً کہہ سکتے کہ مجھے بھی آفر ہوئی تھی‘ اتنے کروڑ کی۔ مگر میں نہ مانا۔ آج کل ویسے بھی وہ تنہا تنہا سے پھرتے ہیں۔ صرف عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے آتے ہیں۔ تو چند وکیل انکے اردگرد ہوتے ہیں اور شیخ جی وہی روایتی سیاہ بال‘ سیاہ چشمہ لگائے سفید سوٹ میں بلیک واسکٹ پہنے ہوتے ہیں اور آج پہلے کی طرح مسکرا مسکرا کر تو نہیں البتہ دانت پسیج پسیج کر زیادہ گفتگو کرتے ہیں۔ لگتا ہے کسی کو کچا چبانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
گورنر کی تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز بحال کرنے کی خواہش
یہ گورنر پنجاب کو بیٹھے بٹھائے کہاں سے طلبہ یونین کا غم ستانے لگا۔ انہیں احساس ہوا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینز ہونے کے بہت سے فیوض و برکات ہیں۔ جو لوگ طلبہ یونینز کا دور دیکھ چکے ہیں‘ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس دور میں یہ یونینز طلبہ سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ بن کر تعلیمی اداروں میں انتشار کا باعث بنتی تھیں۔ آئے روز دنگا فساد‘ ہڑتال‘ کلاسوں کا بائیکاٹ‘ طلبہ کے باہمی جھگڑے تعلیمی نظام کو تباہ کر ر ہے تھے۔ بعض کالج تو اس حوالے سے بدنام بھی تھے کہ وہاں ان تنظیموں کی آڑ میں غنڈہ گردی اور بدمعاشی کو فروغ مل رہا ہے۔ پھر ان تنظیموں پر پابندی لگی تو معاملہ کچھ قابو میں آیا۔ مگر اب پھر گورنر پنجاب چاہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں تعلیم نہیں طلبہ یونینز کی ترویج ہو اور آبیاری ہو۔ ایک بار پھر تعلیمی اداروں میں پی ایس ایف‘ ایم ایس ایف‘ این ایس ایف (جو اب رہی ہی نہیں) جمعیت طلبہ اسلام‘ اسلامی جمعیت طلبہ‘ انجمن طلبہ اسلام‘ اب تو انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن بھی میدان میں آگئی ہے کا دور دورہ ہو۔ اب بتائیں جب یہ سب پارٹیاں انپے اپنے بندوں کو لے کر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ادھم مچانے جائیں گے تو کیا ہوگا۔ کیونکہ ہر سیاسی جماعت انہی کے بل بوتے پر تعلیمی اداروں پر قبضہ جمانے کی کوشش کرتی ہے۔ اب تو ناجائز اسلحہ کی بھرمار ہے۔ غنڈہ عناصر ان تنظیموں کو باآسانی استعمال کریں گے جس کے نتیجے میں جو ہوگا‘ ہم گزشتہ چند روز میں دیکھ چکے ہیں۔ طلبہ کا مشتعل ہجوم کیا کر سکتا ہے جب یہ باہمی طور پر دست و گریباں ہوں گے تو اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال پیدا ہوگی۔ جسے کنٹرول کرنا خود انتظامیہ کیلئے آسان نہ ہوگا۔ کیونکہ انکی پشت پر کھلم کھلا سیاسی جماعتیں ہوں گی۔ یوں تعلیمی ادارے ایک بار پھر سیاست کا گڑھ بن جائیں گے۔
سکھ رہنما کے قتل کی سازش‘ امریکی عدالت میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار پر فرد جرم عائد۔
کینیڈا کے بعد امریکہ میں بھی بھارت کی مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو قانون کے شکنجے میں لایا جانے لگا۔ بھارتی حکومت کے ایماءپر یہ خفیہ ایجنسی والے غیرممالک میں بھارت مخالف سیاسی رہنماﺅں کو قتل کرنے میں ملوث ہیں۔ ان میں خالصتان کے حامی سکھ رہنماءاور کشمیر کی آزادی کے حامی رہنماءسرفہرست ہیں۔ سب سے زیادہ شور اس مجرمانہ سرگرمیوں میں بھارتی سفارت کاروں کے ملوث ہونے پر کینیڈا نے کیا جہاں خا لصتان تحریک کے اہم رہنما کو قتل کیا گیا۔جس کے نتیجہ میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید اختلاف سامنے آئے اور بات ایک دوسرے کے سفارتی اہلکاروں کی ملک بدری تک جا پہنچی۔ کینیڈا کے وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت کو کسی کینیڈین شہری کو مارنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ قانون حرکت میں آئیگا۔ اب یہی کچھ امریکہ میں ہوا ہے۔ جہاں امریکی عدالت نے سکھ رہنماءکے قتل کی سازش میں ملوث بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار پر فرد جرم عائد کردی ہے۔ یوں عالمی رسوائی کا مزہ اب بھارت والے چکھ رہے ہیں۔ جب کوئی انسا ن یا ملک اپنی اوقات سے بڑھ کر گڑبڑ کی کوشش کرتا ہے تو پھر یاد رہے جوتوں کی ذلت اور نشان عبرت انہیں بننا پڑتا ہے۔ اس ساری صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ اب عالمی سطح پر بھارت کا مکروہ چانکیائی چہرہ سامنے آرہا ہے۔ اس کا فائدہ خالصتان کے حامی اٹھائیں گے۔ 1984ءکے قتل عام اور دربار صاحب (گولڈن ٹیمپل) کی بربادی کی آگ ابھی تک سکھوں کو مشتعل کئے ہوئے ہے۔ بیرون ملک آباد سکھ برادری ابھی تک اپنی شناخت اور خالصتان کی آزادی سے جڑے ہوئے ہیں۔ بھارت ان بااثر سکھ رہنماﺅں کو مروا کر اس تحریک کو ختم کرنے کی سازش میں مصروف ہے مگر
جو دریا جھوم کے اٹھتے ہیں
اشکوں سے نہ ٹالیں جائیں گے
کے مصداق خالصتان کی تحریک بھارتی پنجاب میں ہی زندہ اور توانا نہیں‘ مغربی ممالک میں جہاں جہاں سکھ آباد ہیں‘ نہایت منظم اور مضبوط ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں آباد سکھ ریفرنڈم میں آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ ڈال کر بھارت سے علیحدگی کا فیصلہ سنا چکے ہیں۔
غزہ کے متاثرین کیلئے مزید 600 ٹن امدادی سامان بھیجا جائیگا‘ سامان معیاری ہو‘ وزیراعظم کی ہدایت۔
پاکستان بھی حسب المقدور غزہ متاثرین کیلئے غذائی امداد ادویات اور خیمے و کمبل فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم نے مزید 600 ٹن سامان غزہ بھجوانے کاحکم دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اچھا اور معیاری سامان بھجوایا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم اپنی قوم کے دونمبری اور ہیرا پھیری والے مزاج سے بخوبی واقف ہیں کہ اوپر اوپر اچھا مال رکھ کر بول کس طرح دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں جبکہ بوری یا کریٹ میں نیچے خراب ناقص مال بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس د و نمبری کی وجہ سے دنیا بھر میں ہماری ساکھ بے حد خراب ہے۔ ہم سے لین دین اور سودا کرتے ہوئے لوگ گھبراتے ہیں۔ جس ملک میں آنکھیں کھول کر مال چیک کرنے والوں کو بھی دھوکا ملتا ہے‘ وہ بے چارے پوری قیمت ادا کرکے بھی اوپر اچھا اور نیچے خراب مال لے آتے ہیں۔ اس ملک سے جو مال باہر جائیگا‘ اسکی گارنٹی کون دے۔ اور پھر یہ تو امدادی سامان ہے‘ اس میں تو ہمارے تاجر دل کھول کر دونمبری کریں گے۔ یوں 10 پر 20 کا منافع کمائیں گے کہ یہاں کونسی چیکنگ ہونی ہے اور غزہ میں کون چیک کریگا کہ اچھا مال ہے یا ناقص۔ یوں یہ لوگ دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت کا بھی خانہ خراب کرتے ہوئے رتی بھر نہیں ہچکچاتے۔ اب ہماری عزت اسی میں ہے کہ ہم ملک سے باہر چاہے امدادی سامان بھیجیں یا مارکیٹ میں‘ سامان ہمیں ٹھونک بجا کر معیار چیک کرنا چاہیے تاکہ دو نمبری کرنے والوں کو موقع نہ ملے اور ہماری مزید بے عزتی نہ ہو۔ عالمی منڈی میں ہمارے مال کی اسی دونمبری کی وجہ سے کوئی وقعت نہیں جبکہ بھارت جیسا ملک ہمارے چاول اور نمک پر اپنا لیبل لگا کر دھڑا دھڑ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کیونکہ وہ کم از کم عالمی منڈی میں دونمبری کا مال فروخت نہیں کرتا اور ہمیں اپنی پراڈکٹ عالمی منڈی میں لانے کیلئے تگ و دو کرنا پڑی ہے۔
منگل ‘18 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 22 اکتوبر 2024
Oct 22, 2024