امریکہ کی پاک بھارت تعلقات میں  بہتری کی خواہش اور بھارتی عزائم


امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں شنگھائی سربراہی کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیر خارجہ اور پاکستانی رہنماﺅں کے مابین خوشگوار ملاقاتوں کو پاک بھارت تعلقات کی بحالی کے حوالے سے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ دونوں ممالک کے مابین کسی بھی بات چیت کے دائرہ کار اور کردار کا تعین پاکستان اور بھارت کا آپس کا معاملہ ہے۔ ہمارے ساتھ دونوں ممالک کے دوطرفہ خوشگوار تعلقات ہیں۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ اسلام آباد میں منعقد ہونیوالی شنگھائی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشیدگی میں کمی کا باعث بھی بنی ہے اور سفارتی سطح پر اسے دونوں ممالک کے مابین برف پگھلنے سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ یہ تاثر بلاشبہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کے کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے پاکستان کیلئے اچھے جذبات کے اظہار سے قائم ہوا ہے تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر اٹل ہے کہ بھارت کے پاکستان کی سلامتی کیخلاف اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی اور اسکی سازشوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے جبکہ جموں و کشمیر کو ناجائز طور پر اپنے زیرتسلط رکھنے اور پھر پانچ اگست 2019ءکے اقدام کے تحت اسے زبردستی بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنانے کے بعد کشمیری عوام پر بھارتی مظالم کا سلسلہ مزید دراز ہو گیا ہے جہاں دس لاکھ کے قریب بھارتی فوج تعینات ہے جس نے کشمیریوں کو عملاً انکے گھروں میں محصور کرکے ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ مقبوضہ وادی میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر کشمیریوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ روز بھی مقبوضہ وادی کے ضلع بارہمولہ میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی سے ایک کشمیری نوجوان شہید ہو گیا جسے ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا گیا۔ اسی طرح بھارت کی ہندو انتہا پسند مودی سرکار کی مسلمان اقلیتوں کیخلاف متعصبانہ کارروائیاں جاری ہیں اور گزشتہ روز بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں پندرہ مساجد کو شہید کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ وہاں ہندو انتہاءپسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو مذہبی حقوق سے محروم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق شملہ میں پانچ مساجد کو عدالتی حکم پر شہید کیا گیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ مودی سرکار کے مسلمان اقلیتوں پر جاری مظالم اور پاکستان کیخلاف اسکے توسیع پسندانہ عزائم کی موجودگی میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری پیدا ہونے کی بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے جبکہ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم پورے خطے کے امن و سلامتی کیلئے چیلنج بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں امریکہ اور عالمی قیادتوں کو بھارتی جارحانہ ہاتھ روکنے کیلئے کوئی ٹھوس پالیسی طے کرنی چاہیے۔ محض زبانی جمع خرچ سے بھارتی عزائم کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن