یہ دو قومی نظریے کا جلوہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی شنگھائی کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد نہیں آئے۔ جو بھارتی صحافی پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں ، میں ان سے کہتا ہوں کہ واپس جائیں تو اپنے وزیراعظم سے پوچھ کر ہمیں بتائیں کہ وہ دو قومی نظریے سے اس قدر خوفزدہ کیوں ہیں؟ کہ نئی دہلی سے نکل کر اسلام آباد نہیں آسکے۔ ایک سوال ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بار بار دہرایا ہے ، جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا۔
جب تک انگریزوں سے آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو اس وقت ایسی کوئی اصطلاح وجود میں نہیں آئی تھی کہ قائد اعظم خود جدوجہد آزادی کی تحریک میں کانگریس کا ساتھ دے رہے تھے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی عقابی نظروں نے جلد ہی یہ بھانپ لیاکہ ہندو ایک تنگ نظر قوم ہے، مسلمانوں کے ساتھ اس کا رویہ نفرت پر مبنی ہوتا ہے، اگر تحریک آزادی کامیاب ہوجاتی ہے تو ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ہندووں کی غلامی میں آجائیں گے، اس کے بعد مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لیے الگ خطہ زمین کا مطالبہ پیش کردیا۔ قائد اعظم کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کا مذہب ہی الگ نہیں ہے بلکہ ہمارا کلچر، رہن سہن ،ہماری ثقافت یہ سب ہندووں سے الگ ہیں ، اس لیے ہمارا الگ وطن ہونا چاہیے ، اس وقت برصغیر ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کروڑوں مسلمان تحریک پاکستان کا ہراول دستہ بن گئے۔
پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر ہی معرض وجود میں آیا تھا۔لیکن جب دسمبر 1971ءمیں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑھ ہانکی کہ ’ہم نے دوقومی نظریہ آج خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے‘۔قدرت نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کے لیے سرگرم دونوں کرداروں سے انتقام لیا۔ اندرا گاندھی اپنے محافظوں کی گولیوں سے خون میں نہا گئی، شیخ مجیب الرحمن اپنے گھر کی سیڑھیوں پر خون میں لت پ کردئیے گئے۔اب بنگلہ دیش سے شیخ حسینہ واجد کا اقتدار سے الگ ہو کر بھارت فرار ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ دوقومی نظریہ آج بھی زندہ ہے اور بنگلہ دیش میں جیت دراصل دوقومی نظریہ کی ہی ہوئی ہے اور یہ بات وقت نے ثابت کردی ہے۔ شیخ حسینہ واجد نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں مخالفین کو دبانے کا ہر حربہ استعمال کیا۔اس کا واضح جھکاو بھارت کی طرف تھا جو ملک کے کئی حلقوں کو پسند نہیں تھا، اس کے دورِ اقتدار میں جماعت اسلامی کے کئی بزرگ رہنماوں کو تختہ دار لٹکا دیا گیا۔بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے بنگالی رہنماوں کو دی جانے والی موت کی سزائیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ کہ دو قومی نظریہ کہیں ڈوبا نہیں بلکہ اب بھی سطح زمین پر مو جود ہے۔اس حوالے سے برادرم مجیب الرحمن شامی کا ایک تاریخی جملہ مجھے رہ رہ کر یاد آرہا ہے کہ’بنگلہ دیش میں دو قومی نظریے کی بوئی ہوئی فصل کی گردنیں تو آج تک کاٹی جارہی ہیں لیکن اس فصل کی جڑوں کو کاٹنا ناممکن ہے۔‘
اس موقع پرپاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کایہ کہنا کہ جو لوگ یہ کہتے تھے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، وہ آج کہاں ہیں؟ بہت بر محل لگتا ہے۔اگرچہ آرمی چیف نے بنگالی نوجوانوں کے ان نعروں کا حوالہ نہیں دیا کہ پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ۔ مگر ہر شخص ان کے سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ انھوں نے تو اندرا گاندھی کی اس بات کا جواب دیا ہے کہ دو قومی نظریہ کہیں ڈوبا ووبا نہیں ہے، بلکہ وہ آج بھی برصغیر کی فضاوں میں،ہواوں میں اور آسمانوں میں بڑی آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا ہے اور یہ ملک قیامت تک قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔کشمیر تقسیم پاک وہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی،اگر کسی نے انتشار کی کوشش کی تو رب کریم کی قسم اس کے آگے سینہ تان کر اور سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوں گے۔ اس پاکستان پر لاکھوں عاصم منیر، سیاستدان اور علما قربان،پاکستان ہم سے زیادہ اہم ہے۔
یہی دوقومی نظریہ ہی تو نظریہ پاکستان بنا جس کی آبیاری کے لیے میرے مرشد صحافت جناب مجید نظامی نے لاہور کی اہم ترین شاہراہ مال روڈپر نظریہ پاکستان فاونڈیشن قائم کی تاکہ تحریک پاکستان کے کارکن اور رہنما ہماری نئی نسلوں کی رہنمائی کرتے رہیں۔ ان کا لگا ہوا یہ پودا آج میرے بھائی اور دوست جناب جسٹس (ر) اعجاز نثار کی نگرانی میں ایک تناور شجر سایہ دار بن چکا ہے جس کی گھنی چھاوں میں آنے والی نسلیں راحت محسوس کرتی رہیں گی۔ جناب مجید نظامی مرحوم نے تو اس دلی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ انھیں ایٹمی میزائل کے ساتھ ساتھ باندھ کر بھارت کے اوپر داغ دیا جائے۔جب انھوں نے ایک تقریب میں اس خواہش کا برملا اظہار کیا تو وہاں موجود بیگم بشریٰ رحمن اور بیگم مہناز رفیع سمیت دیگر قابل احترام خواتین نے بھی مجید نظامی سے متاثر ہو کر کہا کہ ہمیں بھی ان ساتھ باندھ دیا جائے۔
بدقسمتی سے دوسر ی طرف ہمارے ملک میں سیاستدانوں،صنعتکاروںاور فنکاروں سمیت کئی حلقے بھارت کیساتھ پیار کی پینگیںجھولنے کے لیے ہر وقت مرے جارہے ہیں۔ کبھی پاک بھارت سرحد پر واہگہ کی خونی لکیر کو ختم کرنے کی خواہش انگڑائی لینے لگتی ہے، کبھی امن کی آشا اور سارک چیمبر آف کامرس کی آڑ میںبھارت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں۔نیپال کے ویزوں پر بھارت کی یاترا ہو رہی ہے۔ان صنعتکاروں اور تاجروں کو صرف اپنا کاروبار عزیز ہے اور یہ لوگ قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان چور دروازوں کو فوری طورپر بند کیا جائے۔اسی طرح پاکستان کی اشرافیہ اور نودولتیے شادی کے عروسی اور مہنگے کپڑوں کی خریداری کے لیے بھارت جارہے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہی کچھ کرناتھاتو ہمارے آباﺅ اجداد کو آگ اور خون کا دریا پار کرکے ایک الگ وطن میں ا ٓنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔